قیامت پر ایمان

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
۱۔ ایمان و عمل کی راہ میں تسلسل ۲۔ حقیقت تقوی کیا ہے :

۵۔ قیامت پر ایمان : یہ وہ آخری صفت ہے جو پرہیزگاروں کی صفات کے سلسلے میں بیان ہوئی ہے فرمایا گیا ہے کہ وہ آخرت پر یقینا ایمان رکھتے ہیں ( و با الآخرة ھم یوقنون
وہ یقین رکھتے ہیں کہ انسان مہمل، عبث اور بے مقصد پیدا نہیں ہوا ۔ اس کی تخلیق اس کے آگے بڑھنے کے لئے ہے اور اس کا سفر موت کے بعد ختم نہیں ہوجاتا کیونکہ اگر معاملہ یہیں پر ختم ہوجاتا تو یقینا چند دن کی زندگی کے لئے یہ شور و غل فضول اور بیکار تھا۔ وہ اقرار کرتا ہے کہ پروردگار کی عدالت مطلقہ سب کے انتظار میں ہے اور یہ نہیںکہ اس دنیا میں ہمارے اعمال بے حساب اور بغیر جزا و سزا کے رہ جائیں۔
جب وہ اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے رہا ہوتا ہے تو قیامت کا اعتقاد اس میں اطمینان کی کیفیت پیدا کردیتا ہے اور کام کا بوجھ اس کے لئے باعث تکلیف نہیں رہتا بلکہ وہ ان ذمہ داریوں کا استقبال کر تا ہے۔ حوادث کے مقابلے میں کوہ گراں کی مانند کھڑا ہوجاتا ہے۔ غیر عادلانہ سلوک کے مقابلے میں سر نہیں
جھکاتا ۔ وہ مطمئن ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے نیک و بد کام کی جزا و سزا ہے، موت کے بعد ایک زیادہ وسیع جہان کی طرف منتقل ہونا ہے اور رحمت وسیع اور الطاف پروردگار سے بہرہ ور ہونا ہے۔
آخرت پر ایمان کا مطلب ہے عالم مادہ کی سرحد سے باہر نکل آنا اور ایک بلند تر عالم میں قدم رکھناجو ایسا جہان ہے کہ ہماری دنیا اس کے لئے کھیتی ہے وہاں کی زندگی کے لئے زیادہ آمادہ ہونے کے لئے یہ ایک تربیت گاہ ہے۔ ا س دنیا کی زندگی آخری ہدف اور مقصد نہیں بلکہ یہ حقیقی زندگی کے لئے تمہید کی حیثیت رکھتی ہے ۔ دوسرے جہان کی زندگی کو سازگار بنانے کے لئے اس جہان کی زندگی رحم مادر میں بچے کی زندگی کی طرح ہے۔ انسان کی خلقت کا مقصد کبھی بھی یہ زندگی نہیں رہابلکہ یہ ایک زندگی کے لئے دور تکامل ہے جب تک انسان جنین سے صحیح و سالم اور ہر قسم کے عیب سے پاک متولد نہ ہو بعد والی زندگی میںخوش بخت اور سعادت مند نہیں ہوسکتا۔
قیامت کا عقیدہ رکھنا انسان کی زندگی پر گہرا اثر پیدا کرتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو شہامت و شجاعت بخشتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد پر انسان اس جہان کی زندگی میں افتخار کی بلندیوں تک پہنچتا ہے جو اسے خدا وند عالم کی مقدس راہ میں ”شہادت“ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ شہادت ایک صاحب ایمان انسان کے لئے محبوب ترین چیز ہے کیونکہ یہ در اصل ایک ابدی و جاودانی زندگی کی ابتداء ہے۔
قیامت پر ایمان انسان کو گناہ سے روکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے گناہ خدا اور آخرت پر ایمان سے نسبت معکوسی رکھتے ہیں۔ یہ ایمان جتنا قوی ہوگا گناہ اتنے کم ہوں گے ۔ سورہ ص آیة
۲۶ میں حضرت داؤد سے خطاب الہی ہے :
ولایتبع الھوی فیضلک عن سبیل اللہ ، ان الذین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذاب شدید بما نسوا یوم الحساب۔
خواہشات نفس کی پیروی نہ کرنا کیونکہ وہ تمہیں خدائی راستے سے گمراہ کردیں گی وہ لوگ جو راہ خدا سے گمراہ ہوجاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے کیونکہ انہوں نے روز قیامت کو فراموش کردیا ہے۔
گویا روز جزا کو بھول جانا قسم قسم کی سرکشی ظلم وستم اور گناہوں کا پیش خیمہ ہے اور یہی چیزیں عذاب شدید کا سرچشمہ ہیں۔
زیر نظر آیات میں سے آخری ان لوگوں کے نتیجے اور انجام کار کی خبر دیتی ہے جن کی صفات گذشتہ پانچ آیات میں بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں
(اولئک علی ھدی من ربھم) اور یہی کامیاب ہیں (و اولئک ھم المفلحون)۔
حقیقت میں ان کی ہدایت اور کامیابی کی ضمانت خدا کی طرف سے ہے۔ ”
من ربھم “ کی تعبیر اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن کہتا ہے ” علی ھدی من ربھم“ یہ ایسے ہے گویا ہدایت خدا وندی ایک رہوار ہے جس پر وہ سوار ہیں اور اس سواری کی مدد سے وہ کامیابی اور سعادت کی طرف رواں دواں ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ لفظ ” علی“ عموما تسلط علو او رغلبہ کے مفہوم میں استعمال کیاجاتا ہے۔
ھدی“( بصورت نکرہ)ضمنا اس ہدایت کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جو خدا کی طرف سے ان کے شامل حال ہے یعنی وہ بہت عظیم ہدایت پر فائز ہیں۔
ھم المفلحون کی تعبیر علم معانی و بیان کے اصول کے پیش نظر دلیل حصر ہے یعنی کامیابی کا راستہ صرف انہی لوگوں کا راستہ ہے کیونکہ یہ لوگ پانچ مخصوص صفات اپنا کر ہدایت الہی سے سرفراز ہوئے ہیں (۱


 
۱۔ صاحب تفسیر المنار مصر ہیں کہ اولئک دو گروہوں کی طرف اشارہ ہے۔ پہلا وہ جس میں ایمان بالغیب،قیام نماز اور انفاق کی صفات پائی جاتی ہیں اور دوسراوہ جو آسمانی وحی اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن یہ تفسیر بہت بعید نظر آتی ہے کیونکہ یہ پانچ صفات ایک گروہ سے مخصوص ہیں اور ایک دوسرے سے متصل ہیں اور اس کے دو حصے کرنا درست نہیں۔

۱۔ ایمان و عمل کی راہ میں تسلسل ۲۔ حقیقت تقوی کیا ہے :
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma