روزہ تقوی کا سرچشمہ ہے:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 وصیت۔ اصلاح کا ذریعہ:  روزے کے تربیتی و اجتماعی اثرات:

روزہ تقوی کا سرچشمہ ہے:

چند اہم اسلامی احکام کے بیان کے بعد زیر نظر آیات میں ایک اور حکم بیان کیاگیاہے جو چند اہم ترین اسلامی عبادات میں شمار ہوتاہے اور وہ روزہ ہے۔ اسی تاکید سے ارشاد ہوتاہے: اے ایمان والو! روزہ تمہارے لئے اس طرح سے لکھ دیا گیاہے جس طرح تم سے پہلے کی امتوں کے لئے لکھا گیاتھا ( یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ )
ساتھ ہی اس انسان ساز اور تربیت آفرین عبادت کا فلسفہ چھوٹے سے پر معنی جملے میں یوں بیان کرتاہے: ہوسکتا ہے تم پرہیزگار بن جاؤ (لعلکم تتقون
جی ہاں۔ جیسا کہ اس کی تشریح میں آگے بیان کیاجائے گا کہ روزہ روح تقوی اور پرہیزگاروں کی تربیت کے لئے تمام جہات سے ایک مؤثر عامل ہے۔
اس عبادت کی انجام دہی چونکہ مادی لذائد سے محرومیت اور مشکلات سے وابستہ ہے۔ خصوصا گرمیوں میں یہ زیادہ مشکل ہے اس لئے روح انسانی کو مائل کرنے اور اس حکم کی انجام دہی پرآمادہ کرنے کے لئے مندرجہ بالا آیات میں مختلف تعبیرات کو استعمال کیاگیاہے۔
پہلے ”یا ایہا الذین امنوا“ سے خطاب کیاگیاہے۔ اس کے بعد یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ روزہ تم ہی سے مخصوص نہیں بلکہ گذشتہ امتوں میں بھی تھا اور آخر میں اس کا فلسفہ بیان کیاگیا ہے جس کے مطابق اس پرمنفعت خدائی فریضہ کے اثرات سو فیصد خود انسان کے فائدے میں ہیں اس طرح اسے ایک پسندیدہ اور خوشگوار موضوع بنادیاگیاہے۔ ایک حدیث میں امام صادق سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
لذة ما فی النداء ازال تعب العبادة و العناء۔
یعنی۔یا ایہا الذین امنوا کے خطاب کی لذت نے اس عبادت کی تکان ، سختی اور مشقت کو ختم کردیاہے۔۱
روزے کی سنگینی اور مشکل میں کمی کے لئے بعد کی آیت میں چند احکام اور بیان کئے گئے ہیں۔
ارشاد فرمایا: چند گنے چن روزہ رکھو (ایاما معدوداة) ایسا نہیں کہ تم پورا سال روزہ رکھنے پر مجبور ہو یا یہ سال کا کوئی بڑا حصہ ہے بلکہ یہ تو سال کے ایک مختصر سے حصے میں تمہیں مشغول رکھتاہے۔
دوسری بات جو اس آیت میں ہے یہ ہے کہ تم میں سے جو افراد بیمار ہیں یا مسافر ہیں کہ جن کے لئے روزہ باعث مشقت و زحمت ہے انہیں اس حکم میں رعایت دی گئی ہے کہ وہ ان دنوں کے علاوہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھیں (سفر ختم ہوجانے اور بیماری سے صحت یابی کے بعد) (فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر)۔
تیسری بات یہ کہ جنہیں روزہ رکھنے میں انتہائی زحمت و تکلیف ہوتی ہے (مثلا بوڑھے مرد ، بوڑھی عورتیں اور دائمی مریض جن کے تندرست ہونے کی امید نہیں) ان کے لئے ضروری نہیں کہ وہ روزہ رکھیں، بلکہ اس کے بجائے کفارہ ادا کرنے کے لئے مسکین کو کھانا کھلادیں (و علی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین
جو شخص اس زیادہ راہ خدا میں کھانا کھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے (فمن تطوع خیرا فہو خیر لہ3
آیت کے آخر میں اس حقیقت کو واضح کیاگیاہے کہ روزے کا تمہیں ہی فائدہ پہنچے گا: اور روزہ رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو (و ان تصوموا خیروہ لکم ان کنتم تعلمون
بعض چاہتے ہیں کہ اس جملے کو اس امر کی دلیل قرار دیں کہ روزہ ابتداء میں واجبتخییر تھا۔ مسلمانوں کہ یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ روزہ رکھیں یا اس کی بجائے فدیہ دے دیں تا کہ آہستہ آہستہ روزے کی عادت پڑجائے۔ بعد ازاں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور روزے نے وجوب عینی کی شکل اختیار کرلی۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت روزے کے فلسفے کی تاکید کے طور پرآئی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ عبادت بھی دوسری عبادات کی طرح خدا کے جاہ و جلال میں کوئی اضافہ نہیں کرتی بلکہ اس کا تمام فائدہ خود انسانوں کو ہے۔ اس کی شاہد وہ تعبیرات ہیں جو قرآن کی دیگر آیات میں نظر آتی ہیں۔ مثلا:
ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون
یہ تمہارے لئے ہی بہتر ہے اگر تم جان سکو۔ (جمعہ ۔۶)
یہ آیت نماز جمعہ کے وجوب عینی حکم کے بعد (اجتماع شرائط کی صورت میں) آئی ہے۔
سورہ عنکبوت کی آیت ۱۶ میں ہے:
وَإِبْرَاہِیمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللهَ وَاتَّقُوہُ ذَلِکُمْ خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُون
اور جب ابراہیم نے بت پرستوں کی طرف رخ کرکے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔
یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جان لو۔
اس سے واضح ہوجاتاہے کہ ”ان تصوموا خیر لکم“ سب روزہ داروں کے لئے خطاب ہے نہ کہ کسی خاص طبقے کے لئے ۔
زیر نظر آخری آیت روزے کے زمانے، اس کے کچھ احکام اور فلسفے کو بیان کرتی ہے۔ فرمایا: وہ چند گنے چنے دن جن میں روزہ رکھنا ہے ماہ رمضان کے ہیں (شہر رمضان) وہی مہینہ جس میں قرآن نازل ہواہے (الذی انزل فیہ القرآن
وہی قرآن جو لوگوں کی ہدایت کا سبب ہے جو ہدایت کی نشانیاں اور واضح دلیلیں لئے ہوئے ہے اور جو حق و باطل کے امتیاز اور ان کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کا معیار رکھتاہے (ہدی للناس و بینات من الہدی و الفرقان)۔
اس کے بعد مسافروں اور بیماروں کے بارے میں روزے کے حکم کو دوبارہ تاکیدا بیان کیاگیاہے: جو لوگ ماہ رمضان میں حاضر ہوں انہیں تو روزہ رکھنا ہوگا مگر جو مسافر یا بیمار ہوں وہ اس کے بدلے بعد کے دنوں میں روزہ رکھیں (فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ و من کان مریضا او علی سفر فعدة من ایام اخر4
مسافر اور بیمار کے حکم کا تکرار اس سے پہلی اور اس آیت میں ممکن ہے اس وجہ سے ہو کہ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ مطلقا روزہ نہ رکھنا کوئی اچھا کام نہیں اور ان کا اصرار ہے کہ بیماری اور سفر میں بھی روزہ رکھاجائے لہذا قرآن اس حکم کے تکرار سے لوگوں کہ یہ سمجھانا چاہتاہے کہ جیسے صحیح و سالم افراد کے لئے روزہ رکھنا ایک فریضہ الہی ہے ایسے ہے بیماروں اور مسافروں کے لئے افطار کرنا بھی فرمان الہی ہے جس کی مخالفت گناہ ہے۔
آیت کے آخر میں دوبارہ روزے کی تشریح اور فلسفے کا بیان ہے۔ فرمایا: خدا تمہارے لئے راحت و آرا م اور آسانی چاہتا ہے وہ تمہارے لئے زحمت و تکلیف اور تنگی نہیں چاہتا: (یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر) یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ روزہ رکھنا اگرچہ ظاہرا سختی و پابندی ہے لیکن انجام کار انسان کے لئے راحت و آسائش اور آرام کا باعث ہے۔
ممکن ہے یہ جملہ اس نکتے کی طرف بھی اشارہ ہو کہ احکام الہی ستمگر اور ظالم حاکموں کے سے نہیں جنہیں بلا مشروط بجالانے کے لئے کہاجاتاہے لیکن جہاں انسان کے لئے کوئی حکم بجالانا سخت مشقت کا باعث ہو وہاں حکم الہی کے تحت انسانی ذمہ داری کو سہل تر کردیاجاتاہے اسی لئے روزے کا حکم اپنی پوری اہمیت کے با وجود بیماروں اور مسافروں کے لئے اٹھادیا گیاہے۔
مزید ارشاد ہوتاہے: غرض اور مقصد یہ ہے کہ تم ان روزوں کی تعداد کو مکمل کرو (و لتکملو العدة) یعنی ہر صحیح و سالم انسان پر لازم ہے کہ وہ سال میں ایک ماہ کے روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کے جسم و روح کی پرورش کے لئے ضروری ہے۔ اسی بناء پر ماہ رمضان میں اگر تم بیمار تھے یا سفر میں تھے تو ضروری ہے کہ اتنے ہی دنوں کی بعد میں قضا کرو تا کہ وہ تعداد مکمل ہوجائے یہاں تک کہ عورتوں پرایام حیض کی نماز کی قضا تو معاف ہے لیکن روزے کی قضا معاف نہیں ہے۔
آخری جملے میں ارشاد ہوتاہے: تا کہ اس بناء پر کہ خدانے تمہاری ہدایت کی ہے تم اس کی بزرگی بیان کرو اورشاید اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو (و التکبر و اللہ علی ما ہدکم و لعلکم تشکرون)۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ خدا کی بزرگی بیان کرنے کے مسئلے کا ذکر بطور قاطع ہے (لتکبروا اللہ علی ما ہدکم) جب کہ شکرگذاری کے لئے لعل (شاید) کہا گیاہے۔
تعبیر کا یہ فرق ممکن ہے اس لیے ہو کہ اس عبادت کی انجام دہی بہرحال مقام پروردگار کی تعظیم ہے لیکن شکر کا مفہوم ہے نعمات الہی کو ان کی جگہ پر صرف کرنا اور روزے کے عملی آثار اور فلسفوں سے فائدہ حاصل کرنا۔ اس کی کئی ایک شرایط ہیں جب تک وہ پوری نہ ہوں شکر انجام نہیں پاتا اور ان میں سے زیادہ اہم حقیقت روزہ کی پہچان ، اس کے فلسفوں سے آگاہی اور خلوص کامل ہے۔


 

۱ مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں۔
۲ ”یطیقونہ“ کا مادہ ہے”طوق“ جس کا اصلی معنی ہے وہ حلقہ جو گلے میں ڈالتے ہیں یا جو طبعی طور پر گردن میں ہوتاہے (جیسے رنگدار حلقہ جو بعض پرندوں کے گلے میں ہوتاہے) بعد ازاں یہ لفظ انتہائی توانائی اور قوت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ یطیقونہ کی آخری ضمیر روزے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس طرح اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ جنہیں روزے کے لئے انتہائی قوت اور توانائی خرچ کرنا پڑے اور روزہ رکھنے میں انہیں سخت زحمت اٹھانا پڑے جیسا کہ بڑے بوڑھے اور نا قابل علاج بیمار ہیں، روزہ ان کے لئے معاف ہے اور وہ اس کی جگہ صرف فدیہ ادا کریں۔
لیکن بیمار اگر تندرست ہوجائیں تو ان کی ذمہ داری ہے کہ قضا روزہ رکھیں ۔
بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یطیقونہ کا معنی ہے کہ جو گذشتہ زمانے میں قوت و توانائی رکھتے تھے (کا نوا یطیقونہ) اور اب طاقت نہیں رکھتے (بعض روایات میں بھی یہ معنی کیاگیاہے)۔
بہر حال مندرجہ بالا حکم منسوخ نہیں ہو اور آج بھی پوری طاقت سے باقی ہے اور یہ جو بعض کہتے ہیں کہ پہلے روزہ واجب تخییری تھا اور لوگوں کو اختیار دیا گیاتھا کہ وہ روزہ رکھیں یا فدیہ اور کریں، آیت میں موجود قرائن اس کی تائید نہیں کرتے اور اس پر کوئی واضح دلیل بھی موجود نہیں ہے۔
3-  ”من تطوع خیرا“ کہ بعض نے مستحبی روزوں کی طرف اشارہ قرار دیا ہے۔ بعض دوسرے کہتے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ روزے کی اہمیت اور فلسفے کی طرف توجہ رکھتے ہوئے چاہئیے کہ رغبت کے ساتھ روزہ رکھاجائے نہ کہ اکراہ و جبر سے روزہ رکھاجائے۔
4-  بعض نے ”فمن شہد منکم الشہر“ کی رویت ہلال کے ساتھ تفسیر کی ہے یعنی جو چاند دیکھے اس پر روزہ واجب ہے لیکن یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے حق وہی ہے جو مندرجہ بالا سطور میں کہاگیاہے اور جو قبل و بعد کے جملوں سے بھی ہم آہنگ ہے اور روایات اسلامی کے بھی مطابق ہے

 وصیت۔ اصلاح کا ذریعہ:  روزے کے تربیتی و اجتماعی اثرات:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma