آسمان و زمین میں اس کی ذات پاک کے جلوے ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
وہ لوگ جو کافر ہوگئے ہیںبیزاری پیشوایان

گذشتہ آیت سے توحید پروردگار کی بحث شروع ہوتی ہے۔ زیر نظر آیت در حقیقت خدا کی توحید کے مسئلے اور اس کی ذات پاک کی یکتائی پر ایک دلیل ہے۔
مقدمہ اور تمہید کے طور پراس بات کی طرف توجہ رہے کہ نظم و ضبط، علم، دانش اور عقل کے وجود کی دلیل ہے۔
خداشناسی کی کتب میں ہم اس بنیاد کی تشریح کرچکے ہیں کہ عالم ہستی میں جب نظم و ضبط کے مظاہر نظر پڑتے ہیں اور نظام قدرت کی ہم آہنگی اور وحدت عمل پر نگاہ جاتی ہے تو فورا توجہ ایک اکیلے مبداء علم و قدرت کی مائل ہوجاتی ہے کہ یہ سب کچھ اسی کی طرف سے ہے۔
مثلا جب ہم آنکھ کے سات پردوں میں سے کسی ایک بناوٹ پر بھی غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ امر کسی بے شعور ، اندھی اور بہری فطرت سے محال ہے کہ وہ ایسے اثر کا مبدا ء بن سکے اور جب ان سات پردوں کے باہمی ربط اور ہم آہنگی پھر آنکھ کی ساری مشینسری کی انسانی بدن سے ہم آہنگی اور پھر ایک انسان کی دیگر انسانوں سے ہم آہنگی اور پھر پوری انسانی برادری کی پورے نظام ہستی سے ہم آہنگی دیکھتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ ان سب کا ایک ہی سرچشمہ ہے اور یہ سب ایک ہی ذات پاک کے آثار قدرت ہیں۔
ایک عمدہ اور اچھا اور پر معنی شعر کیا ہمیں شاعر کے اعلی ذوق اور سرشار طبیعت کا پتہ نہیںدیتا اور کیا ایک دیوان میں موجود چند قطعات کی کامل ہم آہنگی اس امر کی دلیل نہیں کہ یہ سب ایک قادر الکلام شاعر کی طبیعت اور ذوق کے آثار ہیں۔
اس تمہید کو نظر میں رکھتے ہوئے اب ہم آیت کی تفسیر کی طرف لوٹتے ہیں اس آیت میں جہان ہستی کے نظم و ضبط کے چھ قسم کے آثار کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔ ان میں سے ہر ایک اس عظیم مبداء کے وجو د کی نشانی ہے۔
۱۔ آسمانوں اور زمین کی خلقت میں (ان فی خلق السموات و الارض) جی ہاں۔ اس پر شکوہ اور ستاروں بھرے آسمان کی خلقت ، یہ عالم بالا کے کرات جن میں کرو ڑوں آفتاب درخشاں،کرو ڑوںثابت و سیار ستارے جو تاریک رات میں پر معنی اشاروں سے ہم سے بات کرتے ہیں اور وہ جنہیں بڑی بڑی دو بینوں سے دیکھاجائے تو ایک دقیق اور عجیب نظام دکھائی دیتاہے ایسا نظام جس نے ایک زنجیر کے حلقوں کی طرف انہیں ایک دوسرے سے پیوست کررکھاہے۔
اسی طرح زمین کی خلقت۔۔۔ جہاں قسم قسم کے مظاہر حیات ہیں۔ جہاں مختلف انواع اور صورتوں میں لاکھوں نباتات اور جانور موجود ہیں۔ یہ سب اس ذات پاک کی نشانیاں اور اس کے علم ، قدرت اور یکتائی کے واضح دلائل ہیں۔
تعجب کی بات ہے کہ انسان کا علم و ادراک جتنا بڑھتا جارہاہے اتنی ہی اس عالم کی عظمت و وسعت اس کی نظر میں زیادہ ہوتی جارہی ہے اور معلوم نہیں یہ وسعت علم کب تک جاری رہے گی۔
اس وقت کے علماء کہتے ہیں کہ عالم بالا میں ہزاروں کہکشائیں موجود ہیں ۔ ہمارا نظام شمسی ایک کہکشاں کا حصہ ہے۔ صرف ہماری کہکشاں میں کروڑوں آفتاب اور چمکتے ستارے موجود ہیں۔ علماء عصر کے اندازے کے مطابق ان میں لاکھوں مسکونی سیارے ہیں جن میں اربوں موجودات ہیں۔ کیاہی عظمت و قدرت ہے۔
۲۔ رات دن کے آنے جانے میں (و اختلاف اللیل و النہار
جی ہاں۔ یہ رات دن کا اختلاف ۱
اور ایک مخصوص تدریجی نظام کے ساتھ یہ روشنی اور تاریکی کی آمد و شد۔ اس سے پھر چار موسم وجود پاتے ہیں۔ نباتات اور دیگر زندہ موجودات اسی نظام کی وجہ سے تدریجی طور پر مراحل تکامل طے کرتے ہیں۔ اس ذات پاک اور اس کی بلند صفات کے لئے یہ ایک اور نشانی ہے۔
۳۔ انسانوں کے نفع کی چیزیں لے کر کشتیاں دریا میں چلتی ہیں (و الفلک التی تجری فی البحر بما ینفع الناس
چھوٹی بڑی کشتیوں کے ذریعے انسان وسیع سمندروں میں چلتاہے اور اپنے مقاصد کے لئے ان کے ذریعے زمین کے مختلف حصوں میں جاتاہے یہ سفر خصوصا بادبانی کشتیوں کا سفر چند نظاموں کی وجہ سے ہے۔
۱۔ وہ ہوائیں جو ہمیشہ سطح سمندر پر رہتی ہیں۔ یہ ہوائیں عموما زمین کے قطب شمالی اور قطب جنوبی سے خط استوا ء کی طرف اور خط استوار سے قطب شمالی اور جنوبی کی طرف چلتی ہیں انہیں آلیزہ اور کاؤنٹر آلیزہ کہتے ہیں۔
ب۔ کچھ ہوائیں علاقوں کے لحاظ سے ایک معین پروگرام کے تحت چلتی ہیں ارو کشتیوں کو یہ سہولت بہم پہنچاتی ہیں کہ وہ اس فراواں طبیعی دولت سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھیں و اسی طرح لکڑی کی خاص طبیعی خاصیت ہے جس کی وجہ سے وہ پانی میں نہیں ڈوبتی یہ بھی پانی پر اجسام کے تیر نے کا سبب بنتی ہے)۔
زمین کے دونوں قطبوں میں غیر مبدل مقناطیسی خاصیت ہے جن کے حساب سے قطب نما کی سوئیاں حرکت کرتی ہیں۔ یہ بھی پانی پر چیزوں کی آمد و رفت میں مددگار ہوتی ہے۔
ان سب کو دیکھ کر اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ جب تک یہ سب نظام ایک دوسرے سے متحد نہ ہوں کشتیوں کی حرکت سے وہ بھر پور فوائد حاصل نہیں کئے جاسکتے جو کئے جارہے ہیں۔ 2
یہ بات حیران کن ہے کہ دور حاضر میں مشینی کشتیوں کے بننے سے ان امور کی عظمت نہ فقط یہ کہ کم نہیں ہوئی بلکہ ان کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
آج کی دنیا میں دیو ہیکل سمندری جہاز اہم ترین ذریعہ نقل و حمل شمار ہوتے ہیں۔ بعض جہاز تو شہروں کی طرح و سیع ہیں۔ ان میں میدان، سیر و تفریح کے مراکز یہاں تک کہ بازار بھی موجود ہیں۔ ان کے عرشہ پر ہوائی جہازوں کے اترنے کے لئے بڑے بڑے ایر پورٹ تک موجود ہیں۔
۴۔پانی جسے خدا آسمان سے نازل کرتاہے، اس کے ذریعے مردہ زمینوں کو زندہ کرتاہے اور اسی نے ان میں طرح طرح کے جانور پھیلا رکھے ہیں (وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاٴَحْیَا بِہِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیہَا مِنْ کُلِّ دَابَّة ص)۔
بارش کے حیات بخش، تازہ اور با برکت موتی اور اس طبیعی صاف و شفاف پانی کے قطرے ہر جگہ گرتے ہیں اور گویا زندگی کا چھڑ کاؤ کرتے ہیں اور اپنے ساتھ حرکت و برکت، آبادی اور نعمتوں کی فراوانی لاتے ہیں۔ یہ پانی جو ایک خاص نظام کے تحت گرتاہے، تمام موجودات اور جاندار اس بے جان سے جان پاتے ہیں۔
یہ سب اس کی عظمت و قدرت کے پیغام بر ہیں۔
۵۔ ہواؤں کا ایک منظم طریقے سے چلنا (و تصریف الریاح
ہوائیں نہ صرف سمندروں پرچلتی اور کشتیوں کو چلاتی ہیں بلکہ خشک زمینوں، پہاڑوں، دروںاور جنگلوں کو بھی اپنی جولان گاہ بناتی ہیں۔ کبھی یہ ہوائیں نرگھاس کے چھوٹے چھوٹے دانوں کو مادہ سبزہ زاروں پر چھڑ کتی ہیں اور پیوند کاری و بارآوری میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ ہمارے لئے پھلوں کا قتحفہ لاتی ہیں اور طرح طرح کے بیجوں کو وجود دیتی ہیں۔
بعض اوقات یہ ہوائیں سمندروں کی موجوں کو حرکت دے کر پانیوں کو ایک دوسرے سے اس طرح ملاتی ہیں کہ سمندری موجودات کو حیات نومل جاتی ہے۔
کبھی ہوائیں گرم علاقوں کی تپش سرد علاقوں میں کھینچ لاتی ہیں اور کبھی سرد علاقوں کی خنکی گرم علاقوں میں منتقل کر دیتی ہیں اور یوں زمین کی حرارت کو معتدل کرنے میں مؤثر مدد کرتی ہیں۔
گویا ہواؤں کا چلنا جس میں یہ تمام فوائد و برکات ہیں، اس کے بے انتہا لطف و حکمت کی ایک اور نشانی ہے۔
۶۔ وہ بادل جو زمین و آسمان کے در میان معلق و مسخر ہیں (وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ
ایک دوسرے سے ٹکرانے والے یہ بادل جو ہمارے سروں کے اوپر گردش میں ہیں۔اربوں ٹن پانی اٹھائے، کشش ثقل کے قانون کے برعکس آسمان و زمین کے در میان معلق ہیں اور اس پانی کو بغیر کوئی خطرہ پیدا کئے ادھر ادھرلے جاتے ہیں۔
یہ اس کی عظمت کی ایک اور نشانی ہے۔
علاوہ ازیں پانی کا یہ خزانہ اگر پانی نہ برساتا تو زمین خشک ہوتی، پینے کو ایک قطرہ پانی نہ ہوتا، سبزہ زاروں کے اگنے کے لئے کوئی چشمہ اور نہر نہ ہوتی ہر جگہ ویران ہوتی اور ہر مقام پر مردہ خاک پھیلی ہوئی ہوتی۔
یہ بھی اس کے علم و قدرت کا ایک اور جلوہ ہے۔
جی ہاں۔۔۔ یہ سب اس کی ذات پاک کی نشانیاں اور علامتیں ہیں لیکن ایسے لوگوں کے لئے جو عقل و ہوش رکھتے ہیں اور غور و فکر کرتے ہیں (لایت لقوم یعقلون) ان کے لئے نہیں جو بے خبر اور کم ذہن ہیں، نہ ان کے لئے جو آنکھیں رکھتے ہوئے بے بصیرت ہیں اور کان رکھتے ہوئے بہرے ہیں۔
۱۶۵۔وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللهِ اٴَندَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِینَ آمَنُوا اٴَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ وَلَوْ یَرَی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اٴَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّہِ جَمِیعًا وَاٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعَذَابِ
۱۶۶۔ إِذْ تَبَرَّاٴَ الَّذِینَ اتُّبِعُوا مِنْ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَاٴَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمْ الْاٴَسْبَابُ
۱۶۷۔ وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَوْ اٴَنَّ لَنَا کَرَّةً فَنَتَبَرَّاٴَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّئُوا مِنَّا کَذَلِکَ یُرِیہِمْ اللهُ اٴَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْہِمْ وَمَا ہُمْ بِخَارِجِینَ مِنْ النَّارِ
ترجمہ
۱۶۵۔ بعض لوگ خدا کو چھوڑ کر اپنے لئے کسی اور معبود کا انتخاب کرتے ہیں انہیں اس طرح دوست رکھتے ہیں جیسے خدا کو رکھنا چاہئے اور ان سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں انہیں (اس محبت کی نسبت جو مشرکین کو اپنے معبودوں سے ہے) خدا سے شدید عشق و محبت ہے اور جنہوں نے ظلم کیاہے (اور خدا کے علاوہ کسی اور کو معبود قرار دے لیاہے) جب وہ عذاب خدا کو دیکھیں گے تو جان لیں گے کہ تمام قدرت خدا کے ہاتھ ہے (نہ کہ ان خیالی معبودوں کے ہاتھ جن سے وہ ڈرتے ہیں) اور خدا کا عذاب اور سزا شدید ہے۔
۱۶۶۔ اس وقت (انسانی و شیطانی معبود اور) رہبر اپنے پیروکاروں سے بیزار ہوں گے۔ وہ عذاب خدا کا مشاہدہ کریں گے اور ان کے باہمی تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔
۱۶۷۔ تب پیروکار کہیں گے کاش ہم دوبارہ دنیا کی طرف پلٹ جائیں تا کہ ہم بھی ان سے اسی طرح بے بیزاری اختیار کریں جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ہیں۔ (ہاں) یونہی خدا انہیں ان کے اعمال حسرت دکھائے گا (اور انہیں اپنے اعمال سراپا یاس دکھائی دیں گے) اور وہ ہرگز (جہنم کی) آگ سے خارج نہیں ہوں گے۔


 

۱ لفظ اختلاف ممکن ہے آمد و شد (آنے جانے ) کے معنی میں استعمال ہوا ہو کیونکہ یہ (خلف) اور (خلافت) کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے ایک دوسرے کا جانشین ہونا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اختلاف رات اور دن کی کمی بیشی کی طرف اشارہ ہو اور دونوں معانی بھی مراد ہوسکتے ہیں، بہر حال یہ خاص نظام جو بہت سے واضح آثار کا حامل ہے اتفاقا اور بغیر کسی عالم و قادر ذات کے وجود پذیر نہیں ہوسکتا۔
2-  لفظ(فلک) کا معنی ہے کشتی، اس کا واحد اور جمع ایک ہی وزن پر ہے۔

وہ لوگ جو کافر ہوگئے ہیںبیزاری پیشوایان
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma