گذشتہ آیت میں ان ظالمین سے متعلق گفتگو تھی جو مساجد الہی کی آبادی سے روکتے تھے اور انہیں ویران کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ زیر نظر آیت اس بحث کا تتمہ ہے۔ ارشاد ہوتاہے: مشرق و مغرب خدا کے ہیں اور جس طرف رخ کرو خدا موجود ہے (وَلِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاٴَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللهِ)۔
ایسا نہیں کہ اگرتمہیں مساجد اور مراکز توحید میں جانے سے روک دیاجائے تو خدا کی بندگی کی راہ بند ہوجائے گی۔ اس جہان کے مشرق و مغرب اس کی ذا ت پاک سے تعلق رکھتے ہیں اور جس طرف رخ کرو وہ موجود ہے۔ اسی طرح قبلہ کی تبدیلی جو بعض خاص وجوہ کے پیش نظر انجام پائی ہے اس سلسلے میں کچھ اثر نہیں رکھتی۔ کیا کوئی جگہ ہے جو خدا سے خالی ہو اصولا تو خدا بے عدیل و بے نیاز اور عالم و دانا ہے (ِ اِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ)۔
اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس آیت میں مشرق و مغرب سے مراد و مخصوص سمتیں نہیں بلکہ یہ تمام اطراف کے لئے کنایہ ہے ۔ جیسے ہم کہا کرتے ہیں کہ دشمنوں نے عداوت سے اور دوستوں نے خوف سے حضرت علی کے فضائل چھپائے لیکن اس کے با وجود مشرق و مغرب آپ کے فضائل سے بھرے پڑے ہیں (یعنی تمام اطراف اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں) اور شاید خصوصیت سے مشرق و مغرب کا ذکر اس لحاظ سے ہے کہ انسان سب سے پہلے انہی سمتوں کو پہنچانتاہے اور باقی جہات ان کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں۔
قرآن مجید میں ہے:
وَاٴَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْاٴَرْضِ وَمَغَارِبَہَا
جنہیں کمزور کرد یا گیاتھا ہم نے انہیں زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا ۔ (اعراف۔۱۳۷)