آباء و اجداد کی اندھی تقلید

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 شیطانی وسوسوں کی کیفیت: پہچان کے آلات:

یہاں مشرکین کی کمزور منطق، حلال غذاؤں کی بلا جواز تحریم یا بطور کلی بت پرستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیاہے: جب ان سے کہاجاتاہے کہ جو کچھ خدانے نازل کیاہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہم نے جس طریقے پر اپنے آباؤ اجداد کو پایاہے اسی کی پیروی کریں گے (وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ اتَّبِعُوا مَا اٴَنزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا اٴَلْفَیْنَا عَلَیْہِ آبَائَنَا)۱۔
قرآن اس بیہودہ اور خرافاتی منطق کی فورا اخبر لیتاہے جو آباؤ اجداد کی اندھی تقلید ہے۔ ارشاد ہوتاہے: کیا ایسا نہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کچھ نہیں سمجھتے تھے اور وہ ہدایت یافتہ نہیں تھے ( اٴَوَلَوْ کَانَ آبَاؤُہُمْ لاَیَعْقِلُونَ شَیْئًا وَلاَیَہْتَدُون)۔یعنی اگر وہ پڑھے لکھے اور ہدایت یافتہ لوگ ہوتے تو گنجائش تھی کہ ان کی پیروی کی جاتی لیکن یہ جاننے کے با وجود کہ وہ ان پڑھ، نادان اور تو ہم پرست تھے کیا تک ہے کہ ان کی پیروی کی جائے کیا یہ جاہل کی تقلید کا مصداق نہیں؟
قومیت اور قومی تعصبات کا مسئلہ بالخصوص جو آباؤ اجداد سے مربوط ہو مشرکین میں خصوصا اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں میں عموما پہلے دن سے موجود تھا اور آج تک جاری و ساری ہے لیکن خدا پرست اور صاحبان ایمان اس منطق کو ردکردیتے ہیں۔ قرآن مجید نے بہت سے مواقع پر آباؤ اجداد کی اندھی تقلید اور تعصب کی شدید مذمت کی ہے اور اس نے آنکھ کان بند کرکے آباؤ اجداد کی تقلید کوردکردیاہے۔
اصولی طرو پر اپنی عقل و فکر کو دست بستہ بڑوں کے سپرد کردینے کا نتیجہ و قیانوسی رجعت پسندی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ عموما بعد والی نسلیں گذشتہ نسلوںسے زیادہ علم و آگہی رکھتی ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ یہ جاہلانہ طرز فکر آج بھی بہت سے افراد اور ملل پر حکمرانی کرتی ہے اور وہ لوگ اپنے بڑوں کی بتوں کی طرح پرستش کرتے، ہیں اور بعض خرافاتی آداب و رسوم کو فقط اس لئے بے چون و چرا مان لیتے ہیں کہ یہ بزرگوں کے آثار ہیں اور انہیں دلفریب لباس پہنا دیتے ہیں۔ مثلا قومیت کی حفاظت، تاریخی اسناد کا تحفظ و غیرہ ۔ یہ طرز فکر ایک نسل کی خرافات دوسری نسل میں منتقل ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔
البتہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آنے والی نسلیں گذرجانے والوں کے آداب و سنن کا تجزیہ کریں اور ان میں سے جو عقل و منطق کے مطابق ہوں ان کی بڑے احترام سے حفاظت کریں اور جوبے بنیاد خرافات وموہومات ہوں انہیں دور پھینک دیں۔ اس سے بہتر کو ن سا کام ہوسکتاہے اور ایسی تنقید گذشتہ لوگوں کے آداب و سنن میں ملی و تاریخی اہمیت کی حامل چیزوں کی حفاظت کہلانے کی اہل ہے لیکن ہر پہلو سے انہیں قبول کرلینا اور اندھی تقلید کرنا سوائے خرافات پرستی اور رجعت پسندی کے کچھ نہیں۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کے متعلق مندرجہ بالا آیت میں خدا فرماتاہے: وہ نہ کسی چیز کو سمجھ سکتے تھے اور نہ ہدایت یافتہ تھے۔ یعنی دو قسم کے افراد کی پیروی کی جاسکتی ہے ایک وہ شخص جو علم اور عقل و دانش رکھتاہو، دوسرا وہ جو خود صاحب علم نہیں تا ہم اس نے کسی عالم کے علم و دانش کو قبول کرلیاہے۔ لیکن ان :کے آباؤ اجداد خود صاحبان علم و دانش تھے نہ ان کا کوئی ہادی و رہبر تھا اور یہ واضح ہے کہ نادان و جاہل جب نادان و جاہل کی تقلید کرتاہے تو یہی تقلید مخلوق کی بربادی کا باعث بنتی ہے۔ ایسی تقلید پر ہزار لعنت ہے۔
بعد کی آیت کہتی ہے کہ یہ گروہ ان واضح دلائل کے ہوتے ہوئے کیوں حق کی طرف نہیں پلٹتا اور کیوں گمراہی و کفر پر اصرار کرتاہے۔ فرمایا: اس کافر قوم کو ایمان لانے اور اندھی تقلید چھوڑنے کی دعوت دیتے ہوئے تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جو بھیڑوں اور دیگر جانوروں کو (خطرے سے نجات دلانے کہ لئے) آواز دیتاہے لیکن وہ ایک پکار اور صدا کے سوا کچھ نہیں سمجھ پاتے (وَمَثَلُ الَّذِینَ کَفَرُوا کَمَثَلِ الَّذِی یَنْعِقُ بِمَا لاَیَسْمَعُ إِلاَّ دُعَاءً وَنِدَاءً)۔
واقعا وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں جو خیرخواہ اور دلسوز چرواہے کہ دادو فریاد کو ایک نوائے سرد کے علاوہ نہیں سمجھتے جو ان کے لئے ایک وقتی تحریک ہی ہوسکتی ہے۔ آیت کے آخر میں تاکید اور مزید وضاحت کے لئے فرماتا ہے: وہ بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں کسی چیز کا ادراک نہیں کرسکتے (صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَیَعْقِلُونَ)
جبھی تو وہ اپنے آباؤ اجداد کی غلط رسموں اور خرافاتی طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور ہر اصلاحی دعوت سے انہوں نے منہ موڑ رکھاہے۔ 2  
بعض مفسرین نے اس آیت کی ایک اور تفسیر بیان کی ہے۔ ان کے مطابق یہ اس طرح ہے: ان لوگوں کی مثال جو بتوں اور مصنوعی خدا کو پکارتے ہیں اس شخص کی سی ہے جو بے شعور جانوروں کو آواز دیتاہے۔ نہ وہ جانور چرواہے کی کسی بات کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ یہ مصنوعی معبود اپنے عبادت گذاروں کی باتیں سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بت بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔
لیکن اکثر مفسرین نے پہلی تفسیر کو منتخب کیاہے اور روایات اسلامی بھی اسی کی موید ہیں۔


 

۱ -”الفینا“ کا معنی ہے ”ہم نے پایا اور پیروی کی۔
2-  اس تفسیر کے مطابق آیت تقدیر کی محتاج ہے۔ گویا اصل میں یوں ہے ”مثل الراعی للذین کفروا“ ۔ یعنی کافروں کو ایمان کی دعوت دینے والے کی مثال اس چرواہے کی سی ہے۔ اس بناء پر صم بکم عمی فہم لا یعقلون ایسے لوگوں کی توصیف ہے جنہوں نے ادراک کے تمام آلات عملا ضائع کردیئے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی آنکھ، کان اور زبان نہیں ہے بلکہ وہ اس سے چونکہ فائدہ نہیں اٹھاتے اس لئے گویا نہیں ہے۔

 شیطانی وسوسوں کی کیفیت: پہچان کے آلات:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma