طرح طرح کی خدائی آزمائش

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
برزخ کی زندگی اور روح کی بقاء:  خدا لوگوں کی آزمائش کیوں کرتاہے:

راہ خدا میں شہادت، شہداء کی ابدی زندگی اورصبر و شکر جن میں سے ہر ایک خدائی آزمائش کے مختلف رخ ہیں کے ذکر کے بعد اس آیت میں بطور کلی آزمائش اور اس کی مختلف صورتوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے اور اس کے یقینی اور غیر مبدل ہونے کا تذکرہ فرمایا گیاہے۔ ارشاد ہوتاہے: یہ امر مسلم ہے کہ ہم تمہیں چند ایک امور مثلا خوف، بھوک، مالی و جانی نقصان اور پھلوں کی کمی کے ذریعے آزمائیں گے (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِنْ الْخَوْفِ و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات
چونکہ ان امتحانات میں کامیابی صبر و پائیداری کے بغیر ممکن نہیں لہذا آیت کے آخر میں فرمایا: اور بشارت دیجئے صبر و استقامت دکھانے والوں کو (و بشر الصابرین)۔
اور یہ ایسے افراد ہیں جو ان سخت آزمائشوں سے خوبصورتی سے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ انہیں بشارت دینا چاہئیے باقی رہے سست مزاج اور بے استقامت لوگ تو وہ آزمائشوں کے مقامات سے روسیاہ ہوکر واپس آتے ہیں۔ بعد کی آیت صابرین کے بارے میں زیادہ تشریح کرتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: وہ ایسے اشخاص ہیں کہ جب کسی مصیبت کا سامنا کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم خدا کی لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کرجائیں گے (الذین اذآ اصابتہم مصیبة قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون
اس حقیقت کی طرف دیکھتے ہوئے کہ ہم اس کے لئے ہیں ہمیں یہ درس ملتاہے کہ نعمات زائل ہونے سے ہمیں کوئی دکھ نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ یہ تمام نعمتیں بلکہ خود ہمارا وجود اس سے تعلق رکھتاہے۔ آج وہ ہمیں کوئی چیز بخشتاہے اور کل واپس لے لیتاہے ، ان دونوں میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہے۔
اس واقعیت کی طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ ہم سب اسی کی بارگاہ میں لوٹ کر جائیں گے ہمیں یہ سبق ملتاہے کہ یہ ہمیشہ رہنے کا گھر نہیں ہے۔ ان نعمتوں کا زوال اور ان عطیات کی کمی بیشی سب کچھ بہت جلد گذرجانے والی چیزیں ہیں اور یہ تکامل کا ذریعہ ہیں لہذا ان دو بنیادی اصولوں کی طرف توجہ کرنا۔ صبر و استقامت کے جذبے کو بہت تقویت بخشتا ہے۔
واضح ہے انا للہ و انا الیہ راجعون سے مراد زبانی ذکر نہیں ذکر نہیں بلکہ اس کی حقیقت اور روح کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اس کے مفہوم میں توحید و ایمان کی ایک دنیا آباد ہے۔
زیر بحث آخری آیت میں عظیم امتحانات میں صبر کرنے والوں اور پامردی دکھانے والوں کے لئے خدا تعالی کے عظیم لطف و کرم کو بیان کیاگیاہے۔ ارشاد ہوتاہے: یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا کا لطف و کرم اور درود و صلوت ہے (اٴُوْلَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ قف1
یہ الطاف اور رحمتیں انہیں قوت بخشتی ہیں کہ وہ اس پر خوف و خطر راستے میں اشتباہ اور انحراف میں گرفتار نہ ہوں۔ لہذا آیت کے آخر میں فرمایا: اور وہی ہدایت یافتہ ہیں )َاٴُوْلَئِکَ ہُمْ الْمُہْتَدُونَ
ان چند آیات میں خدا کی طرف سے عظیم امتحان اور اس کے مختلف رخ نیز کامیابی کے عوامل اور امتحان کے نتائج کو واضح طور پر بیان کیاگیاہے
 


 

۱-  المنار کا مؤلف لکھتاہے کہ صلوت سے مراد بہت زیادہ تکریم، کامیابیاں، خدا کے یہاں مقام بلند اور نبدگان خدا میں سربلندی ہے اور ابن عباس سے منقول ہے کہ اس سے مراد گناہوں کی بخشش ہے (المنار، ج۲، ص۴۰) لیکن واضح ہے کہ صلوت کا مفہوم وسیع ہے اس میں یہ تمام امور، رحمت کا سایہ اور نعمات الہی بھی شامل ہیں۔

برزخ کی زندگی اور روح کی بقاء:  خدا لوگوں کی آزمائش کیوں کرتاہے:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma