خدایا !آخر ہم انسان ہیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
انسان سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیںطاقت کے مطابق ذمہ داری

دیگرانسانی راہنماوٴں کے مقابلے میں انبیا ء کا ایک یہ امتیا ز ہے کہ تمام انبیاء اپنے ہدف ومقصد اور دین ومکتب پر قطعی ویقینی ایمان رکھتے تھے اور ان کے عقیدے میں کسی قسم کا تزلزل نہ تھا ۔قرآن حکیم لوگو ں کو ایسے پیغمبر کی طرف دعوت دیاتاہے جو اپنے پورے وجود سے اپنے مطلب ومدعاکا ادراک رکھتا ہے ارشاد الٰہی ہے :فاٰمنواباللہ ورسولہ النبی الامی الذین یوٴمن باللہ وکلماتہ ۔
اللہ اور اس کے اس رسول نبی امی پر ایمان لے آوٴ جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتاہے ۔(اعراف ۔۱۵۸)
زیر بحث آیت میں یہ نکتہ بیا ن کیا گیا ہے کہ خالق کائنات اور اس کے تمام پروگرام جو پیغمبر پر نازل ہو ئے ہیں پیغمبر کا ان پر مستحکم اور غیر متزلزل عقیدہ ہے بلکہ مومنین اور جو مکتب پیغمبرکے تربیت یافتہ ہیں وہ بھی ایسے ہیں ۔ ان کے بر عکس یہ لوگ ہیں
یریدون ان قوابین اللہ رسلہ ویقولون نوٴمن ببعض ونکفرببعض
خدا او راس کے پیغمبروں کے درمیان تفریق اور اختلا ف کے قائل ہیں اور چاہتے ہیں کہ بعض پرایمان لے آئیں اور بعض کا انکار کردیں ۔(سورہ نساء۔۱۵۰)
زیر بحث آیت کے آگے کہتی ہے :وہ ایمان رکھتے ہیں کہ تمام انبیاء ایک ہی ہدف اور مقصد کے حامل ہیں اور ایک ہی مقصود کے لیے بھیجے گئے ہیں لہٰذا سب زبان حال سے کہتے ہیں :(لا نفرق بین احد من رسلہ )یعنی ہم خدا کے بھیجے ہوئے افراد میں کوئی فرق نہیں کرتے ۔
البتہ یہ با ت اس امر سے تضاد نہیں رکھتی کہ گذشتہ تمام ادیان منسوخ ہوچکے ہیں کیو نکہ جیسا ہم کہ چکے ہیں کہ انبیاء کی تعلیما ت مختلف کلا سوں کی تعلیم کی طرح ہیں ۔ جب اعلی کلاسوں میں ترقی کی جا تی ہے تو پہلی کلاسیں چھو ٹ جا تی ہیں حالانکہ ان کا احترام بر قرار رہتاہے
بندگی کااعتراف
اہل ایمان ہمیشہ بندگی اور عبودیت کا احترام کرتے ہو ئے کہتے ہیں :پروردگار!تیرے پیغمبر تیری طرف بلانے کے لیے جو دعوت او رندا دیتے ہیں ہم اسے دل وجا ن سے قبول کر لیتے ہیں اور تیری پیروی اور اطاعت کی منزل میں داخل ہو تے ہیں ”وقالواسمعنا واطعنا ) (۱)
لیکن خدایا !آخر ہم انسان ہیں ۔ کبھی ہمارے نفوس ہمیں لغزشوں سے بھی دوچارکردیتے ہیںلہذاہم تجھ سے بخشش کی امید رکھتے ہیں کیونکہ ہم کو بہر حال تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔ غفرانک ربنا والیک المصیر“ (۲)
۲۸۶۔لا یکلف اللہ نفساالا وسعھا  لھاماکسبت وعلیھا ما اکتسبت  ربنا ل اتوٴاخذنا ان نسینا او اخطانا ربنا ولا تحمل علینا اصراََکما حملتہ علی الذین من قبلناربنا ولا تحملناما لا طاقة لنابہ واعف عنا وغفرلنا وارحمنا انت مولا نا فاانصرنا علی القوم الکٰفرین
تر جمہ
خدا کسی شخص کو ا س کی طاقت سے زیا دہ ذمہ داری نہیں سونپتا (اسی بنا ء پرانسان )جو بھی (نیک )کا م انجا م دے اس نے اپنے لیے انجا م دیا ہے اور جو (برا ) کام کرے خود اس کے لیے نقصان دہ ہے (موٴمنین کہتے ہیں )پروردگا !اگر بھول جا ئیں یا خطا کر گزریں تو ہما را مواخذہ نہ کرنا ۔ اے ہما رے رب !کسی سنگین ذمہ داری کا بوجھ ہم پر نہ ڈالنا جیسا کہ (گناہ و سر کشی کی وجہ سے )ان لو گوں پرڈالا گیا جو ہم سے پہلے تھے ۔ اے ہمارے پروردگا ر !ایسی سزائیں نہ دے جنہیں ہم برداشت نہیں کرسکتے اور ہمارے گنا ہوں کے آثار ہم سے دھو ڈال ہمیں بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر دے توہما را مولا اور سر پرست ہے پس ہمیں کفا ر کی جما عت پر کامیابی او رکامرانی عطافرما.


(۱)”سمع “بعض اوقات سمجھنے اور تصدیق کرنے کے معنی میں بھی استعما ل ہوتاہے جس کی ایک مثال یہی آیت ہے۔
(۲) ادبی لحاظ سے یہا ں ”(نریدغفرانک ) (ہم تیری بخشش چاہتے

 

انسان سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیںطاقت کے مطابق ذمہ داری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma