صفا و مروہ کے کچھ اسرار و رموز:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
صفا و مروہ: ایک سوال کا جواب:

یہ صحیح ہے کہ عظیم لوگوں کی زندگی کے حالات پڑھنا اور سننا انسان کو کمال کی طرف لے جاتاہے لیکن اس سے زیادہ صحیح، زیادہ عمیق اور گہرا طریقہ بھی موجود ہے اور وہ ہے ان مقامات کا مشاہدہ کرنا اور دیکھنا جہاں مردان خدا نے راہ خدا میں قیام کیا اور وہ مراکز جہاں ایسے واقعات عملا رونما ہوئے۔
یہ مقامات و مراکز بذات خود زندہ اور جاندار تاریخ کی کتابیں تو خاموش اور بے جان ہیں۔ ایسے مقاما ت پر انسان کے لئے زمانی فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور وہ خود کو اصل واقعہ میں شریک محسوس کرتاہے اور اسے یوں لگتاہے کہ وہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے۔
ایسے مشاہدات کا تربیتی اثر گفتگو اور مطالعہ کتب سے کہیں بڑھ کرہے ۔ یہ مقام احساس ہے منزل ادراک نہیں۔ یہ مرحلہ تصدیق ہے مقام تصور نہیں اور یہ عینیت ہے ذہنیت نہیں ۔
دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عظیم پیغمبروں میں سے بہت کم ایسے ہیں جو حضرت ابراہیم کی طرح جہاد کے مختلف میدانوں اور شدید آزمائشوں سے گزرے ہوں یہاں تک کہ قرآن نے ان کے بارے میں فرمایا:
إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِینُ
یقینا یہ بہت واضح اور عظیم امتحان اور آزمائش ہے۔ (الصفت۔۱۰۶)
یہی مبارزات اور سخت آزمائشیں تھیں کہ جنہوں نے حضرت ابراہیم کی ایسے تربیت و پرورش کی کہ (امامت) کا تاج افتخار ان کے سر پر رکھاگیا۔
مراسم حج در حقیقت حضرت ابراہیم کے مبارزات کے میدانوں،توحید، بندگی، فداکاری اور اخلاص کی منازل کی دلوں پر پوری منظر کشی کرتے ہیں۔
ان مناسک کی ادائیگی کے وقت اگر مسلمان ان کی روح اور اسرار سے واقف ہوں اور ان کے مختلف پہلوؤں پر توجہ دیں تو یہ تربیت کی ایک بڑی درس گاہ اور خداشناسی ، پیغمبر شناسی اور انسان شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے۔
اب ہم حضرت ابراہیم کے واقعے اور صفا و مروہ کے تاریخی پہلوؤں کی طرف لوٹتے ہیں۔
ابراہیم بڑھاپے کی منزل کو جا پہنچے تھے مگر ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ انہوں نے خداسے اولاد کی درخواست کی۔ عالم پیری ہی میں ان کی کنیز ہاجرہ کے بطن سے انہیں فرزند عطا ہوا جس کا نام انہوں نے اسماعیل رکھا۔
آپ کی پہلی بیوی سارہ کو یہ پسند نہ تھا کہ ان کے علاوہ کسی خاتون کے بطن سے ابراہیم کو فرزند ملے۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ ماں بیٹے کو مکہ میں جاکر ٹھہرائیں جو اس وقت ایک بے آب و گیاہ بیابان تھا۔
ابراہیم نے حکم خدا کی اطاعت کی اور انہیں سرزمین مکہ میں لے گئے جو ایسی خشک اور بے آب و گیاہ تھی کہ وہاں کسی پرندے کا بھی نام و نشان نہ تھا۔ جب ابراہیم انہیں چھوڑ کر تنہا واپس ہولئے توان کی اہلیت رونے لگیں کہ ایک عورت اور ایک شیر خوار بچہ اس بے آب و گیاہ بیابان میں کیا کریں گے
اس خاتون کے گرم آنسو اور ادھر بچے کا نالہ وزاری۔ اس منظر نے ابراہیم کا دل ہلا کے رکھ دیا۔ انہوں نے بارگاہ الہی میں ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا۔
خداوندا! میں تیرے حکم پر اپنی بیوی اور بچے کو اس جلادینے والے بے آب و گیاہ بیابان میں تنہا چھوڑ رہاہوں، تا کہ تیرا نام بلند اور تیرا گھر آباد ہو۔
یہ کہہ کہ غم و اندوہ اور شدید محبت کے عالم میں الوداع ہوئے۔
زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ ماں کے پاس آب و غذا کا جو توشہ ختم ہوگیا اور اس کی چھاتی کا دودھ بھی خشک ہوگیا۔ شیرخوار بچے کی بے تابی اور تضرع و زاری نے ماں کو ایسا مضطرب کردیا کہ وہ اپنی پیاس بھول گئی۔ وہ پانی کی تلاش میں اٹھ کھڑی ہوئی پہلے کو ہ صفا کے قریب گئی تو پانی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا۔ سراب کی چمک نے اسے کوہ مروہ کی طرف کھینچا تو وہ اس کی طرف دوڑی لیکن وہاں بھی پانی نہ ملا۔ وہاں ویسی چمک صفا پر دکھائی دی تو پلٹ کرآئی۔
زندگی کی بقاء اور موت سے مقابلے کے لئے اس نے ایسے سات چکر لگائے ۔ آخر شیرخوار بچہ زندگی کی آخری سانسیں لینے لگا کہ اچانک اس کے پاؤں کے پاس انتہائی تعجب خیز طریقے سے زمزم کا چشمہ ابلنے لگا۔ ماں اور بچے نے پانی پیا اور موت جو یقینی ہوگئی تھی اس سے بچ نکلے۔
زمزم کا پانی گویا آب حیات تھا۔ ہر طرف سے پرندے اس چشمے کی طرف آنے لگے۔ قافلوں نے پرندوں کی پرواز دیکھی تو اپنے رخ اس طرف موڑدیے اور ظاہرا ایک چھوٹے سے خاندان کی فداکاری کے صلے میں ایک عظیم مرکز وجود میں آگیا۔
آج خانہ خدا کے پاس اس خاتون اور اس کے فرزند اسماعیل کا مسکن ہے۔ ہر سال تقریبا ڈیڑھ کروڑ افراد اطراف عالم سے آتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس مسکن کو جسے مقام اسماعیل کہتے ہیں اپنے طواف میں شامل کریں گویا اس خاتون اور اس کے بیٹے کے مدفن کو کعبہ کا جزئی سمجھیں۔
صفا و مروہ کی سعی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ حق کا نام زندہ کرنے اور عظمت، استقلال اور آبادی کے لئے شیرخوار بچے تک کو جان کی بازی لگا دینا چاہئیے ۔ صفا و مروہ کی سعی میں یہ سبق بھی پنہاں ہے کہ نا امیدیوں کے بعد بھی کئی امیدیں ہیں اسماعیل کی والدہ جناب ہاجرہ نے وہاں پانی کی تلاش جاری رکھی جہاں وہ دکھائی نہ دیتاتھا تو خدانے بھی ایسے راستے سے انہیں سیراب کیا جس کا تصور نہیں ہوسکتا۔
صفا ومروہ ہم سے کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب ہمارے اوپر بت نصب تھے لیکن آج پیغمبر اسلام کی مسلسل کوششوں اور جد و جہد سے شب و روز ہمارے پہلو میںلا الہ الا اللہ کی صدا گو رنج رہی ہے۔
صفا و مروہ کی پہاڑیاں حق رکھتی ہیں کہ وہ فخر کریں کہ ہم پیغمبر اسلام کی تبلیغات کی پہلی منزل ہیں۔ جب مکہ شرک کی تاریکی میں ڈوبا ہواتھا تو آفتاب ہدایت یہیں سے طلوع ہوا۔ اے صفا و مروہ کی سعی کرنے والو تمہارے دل میں یہ بات رہے کہ اگر آج ہزاروں افراد اس پہاڑی کے قریب پیغمبر کی دعوت پرلبیک کہہ رہیے ہیں تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ نبی اکرم اس پہاڑی کے اوپرکھڑے ہو کر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے رہے تھے اور کوئی قبول نہیں کرتا تھا۔ تم بھی حق کی راہ میں قدم اٹھاؤ اور اگر ان لوگوں کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملے جن سے مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے تو مایوس نہ ہوجاؤ اور اپنے کام کو اسی طرح جاری رکھو۔
صفا ومروہ کی سعی ہمیں درس دیتی ہے کہ توحید کے اس مرکز اور آئین کی قدر و منزلت پہچانو کہ کتنوں نے اپنے آپ کو موت سے ہم کنار کرکے آج اس مرکز توحید کو تمہارے لئے محفوظ رکھا۔
اسی لئے خداوند عالم نے سب زائرین خانہ کعبہ پر واجب قرار دیا کہ مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع کے ساتھ جوہر قسم کے امتیاز اور تشخص سے پاک ہو سات مرتبہ ان امور کی تجدید کے لئے ان دو پہاڑیوں کے در میان چلیں ۔ جو لوگ کبر و غرور کی وجہ سے عام لوگوں کے گزرنے کی جگہ پر ایک قدم اٹھانے کو تیار نہیں اور جو سڑکوں پر تیز رفتاری سے چلنا پسند نہیں کرتے وہی فرمان خدا کی اطاعت کے لئے کبھی آہستہ اور کبھی تیزی سے دوڑتے ہیں روایات کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں کے بارے میں دیے گئے احکامات متکبرین کو بیدار کرنے کے لئے ہیں۔
فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما ولغت میں حج کا معنی قصد بیان کیاگیاہے لیکن قرآن اور احادیث میں اس کا مفہوم وہ مخصوص اعمال اور مناسک ہیں جو مسلمان مکہ میں انجام دیتے ہیں۔
جب قرآن یہ بتاچکا کا صفا و مروہ دو عظیم نشانیاں ہیں ، لوگوں کی بندگی کا مرکز اور شعائر الہی ہیں۔ مزید کہتاہے: جو شخص خانہ خدا کا حج کرے یا عمرہ انجام دے اس کے لئے کوئی حرج نہیں کہ ان دو پہاڑیوں کے در میان چکر لگائے یہ عمل طواف کے لغوی معنی کے خلاف نہیں کیونکہ کسی طرح کا بھی چلنا ہو اگر انسان واپس وہیں آجائے جہاں سے ابتداء کی تھی تو یہ طواف ہے چاہے وہ حرکت دائرہ کی صورت میں ہو جیسے خانہ کعبہ کے گرد طواف یا دائرہ کی صورت میں نہ ہو جیسے صفاو مروہ کے در میان۔
 

صفا و مروہ: ایک سوال کا جواب:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma