ایک اور زنجیر ٹوٹ گئی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
اسلام طلاق کے بارے میں وضع کردہ بچوں کو دودھ پلانے کے بارے میں سات احکام

جیسا کہ گذشتہ مباحث میں گزرچکاہے ۔ زمانہ جاہلیت میں عورتیں پابندیوں اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھیں ۔ ان کے ارادے ، فکر و نظر اور میلان و رغبت کی کوئی حیثیت نہ تھی اور وہ خود سرمردوں کے ارادہ و میلان کے تابع تھیں۔
اس کیفیت کا ایک نمونہ انتخاب شوہر کا مسئلہ بھی تھا جس میں عورتوں کی خواہش و رغبت کا کوئی دخل نہ تھا۔ اس روش میں معاملہ یہاں تک جا پہنچا تھا کہ اگر عورت رسمی نکاح بھی کرلیتی اور اس کے بعد اس شوہر سے علیحدگی ہوجاتی تو نئے سرے سے اس سے وابستگی بھی ولی (یا اولیاء) کے ارادے پر موقوف تھی۔ بعض اوقات اگر میاں بیوی اپنی سابقہ ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنا چاہتے تو ان کے اولیاء اپنے منافع کی خاطر یا خیالات و موہومات کی بناء پر اس تعلق میں حائل ہوجاتے۔
قرآن صراحت سے اس روش کو مذموم قرار دیتاہے اور کہتاہے کہ اولیاء اور دیگر افراد ہرگز ایسا کوئی حق نہیں رکھتے کیونکہ جب میاں بیوی جو شادی کے دو اصلی اور بنیادی رکن ہیں وہ ایک دوسرے سے موافقت رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ علیحدگی کے بعد پھر شادی کرلیں تو دوسروں کی مخالفت کوئی معنی نہیں رکھتی۔
گذشتہ آیت میں ”بلوغ اجل“ کا معنی ہے عورت کے آخری دنوں تک پہنچنا لیکن اس آیت میں نئے سرے سے ازدواج کے قرینے سے ”بلوغ اجل“ سے مراد آخری دن کا گزرجاناہے۔ اصطلاح کے مطابق گذشتہ آیت میں غایت ”مغیا“کا جزء تھی اور یہاں ”مغیا“سے خارج ہے۔
اس بناء پر آیت سے معلوم ہوتاہے کہ شیبہ عورتیں یعنی جنہوں نے ایک دفعہ شادی کرلی ہے وہ دوبارہ شادی کے لیے اولیاء کی تائید حاصل کرنے کی بالکل محتاج نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کی مخالفت بھی بے اثر ہے لیکن کیا باکرہ لڑکیاں ولی کی اجازت کی محتاج ہیں یا نہیں، اس بارے میں آیت خاموش ہے۔ اس کی تشریح کتب فقہ میں موجود ہے۔ آیت کا آخری حصہ کہتاہے کہ احکام کا یہ سلسلہ جو تمہارے نفع کے لیے بیان ہواہے ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو کائنات کے پیدا کرنے والے اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جب تک انسان خدا پرستی اختیار کرکے خود پرستی سے نجات حاصل نہ کرلے اپنے میلانات پر ہرگز کنٹرول نہیں کرسکتا اور کج روی سے بالکل نہیں بچ سکتا۔
”ذَلِکُمْ اٴَزْکَی لَکُمْ وَاٴَطْہَرُ وَاللهُ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ“
یہ جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان احکام پر عمل کرنے کا نتیجہ سوفیصد تمہارے حق میں ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتاہے کہ اطلاعات کی کمی کی وجہ سے تمہیں احکام کے فلسفہ سے واقفیت حاصل نہ ہو لیکن وہ خدا جو تمام اسرار سے آگاہ ہے اس نے یہ احکام تمہارے منافع کے تحفظ، خاندانوں کی طہارت اور پاکیزگی کے لیے جاری کیے ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ خداوند عالم نے اس جملے میں ان احکام پر عمل کرنے کا نتیجہ تزکیہ بھی اور طہارت بھی قرار دیاہے”لزمی لکم و اطہر“ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان احکام پر عمل کرنا ایک تو ان مختلف آلودگیوں اور ناپاکیوں کو دور کرتاہے جو غلط کاموں کے سبب خاندانوں کے دامن گیر ہوجاتی ہیں اور دوسرا اس کا حاصل یہ ہے کہ انہیں نشو و نما، تکامل اور خیر و برکت نصیب ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ تزکیہ کا اصلی لغوی معنی نمو پانا اور بڑھناہی ہے۔
۲۳۳۔وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اٴَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَتُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَہَا لاَتُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِہَا وَلاَمَوْلُودٌ لَہُ بِوَلَدِہِ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ فَإِنْ اٴَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْہِمَا وَإِنْ اٴَرَدْتُمْ اٴَنْ تَسْتَرْضِعُوا اٴَوْلاَدَکُمْ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ
ترجمہ
۲۳۳۔مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلاتی ہیں (یہ) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کے دور کی تکمیل کرنا چاہے اور اس (باپ) کے لیے جس کے وہاں بچہ پیدا ہواہے ضروری ہے وہ ان (ماؤں) کو (دودھ پلانے کی مدت میں) مناسب طریقے سے خوراک اور لباس دے (اگرچہ وہ طلاق لے چکی ہوں)۔
کسی شخص کی ذمہ داری اس کی قوت و طاقت سے زیادہ نہیں ہے نہ ماں بچے کو اس کے باپ سے اختلاف کی وجہ سے) ضرر پہنچانے کا حق رکھتی ہے اور نہ باپ اور اس کے وارث پر ایسا کرنا لازم ہے (کہ وہ دودھ پلانے کی مدت میں ماں کے اخراجات مہیا کرے) اور اگر وہ دونوں باہمی رضامندی اور مشورے سے بچے کا دودھ (زیادہ جلدی ) چھڑوا دیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اگر (طاقت نہ رکھنے یا ماں کے موافق نہ ہونے سے) اپنے بچوں کے لیے کوئی آیالے آؤتو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے ۔ بشرطیکہ ماں کا گذشتہ حق شائستہ اور مناسب طریقے سے اداکردو اور خدا سے ڈرو او جان لوکہ جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا سے دیکھنے والا ہے ۔
 

اسلام طلاق کے بارے میں وضع کردہ بچوں کو دودھ پلانے کے بارے میں سات احکام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma