تمام نیکیوں کی اساس

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
دوبارہ حق پوشی کی مذمت قصاص تمہاری حیات کا سبب ہے

جیسا کہ قبلہ کی تبدیلی سے متعلق آیات کے ذیل میں گذر چکاہے عیسائی عبادت کے وقت مشرق کی طرف اور یہودی مغرب کی طرف منہ کیا کرتے تھے لیکن مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی نے کعبہ کو قبلہ قرار دیا۔ جو ان دونوں کے دمیان واقع ہے اور اس علاقے میں جنوب کی طرف تھا۔ ہم نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ مخالفین اسلام ایک طرف سے شور بلند کرتے تھے اور نو وارد مسلمان دوسری طرف متحیر تھے۔ مندرجہ بالا آیت کاروئے سخن ان دونوں کی طرف ہے فرمایا: نیکی صرف یہ نہیں کہ نماز کے وقت منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو اور اپنا سارا وقت اسی مسئلے پر بحث کرتے گزار دو (لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب
 بر (بروزن ضد) ۔ اس کا اصل معنی وسعت ہے۔ بعد ازاں نیکیوں، خوبیوں اور احسان کے معنی میں استعمال ہونے لگا کیونکہ یہ امور وجود انسانی میں محدود نہیں رہتے بلکہ وسعت پیدا کرکے دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی ان سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔لفظ بر (بر وزن نر) وصفی پہلو رکھتاہے۔ اس کا معنی ہے وہ شخص جو نیکوکار ہو۔ اصل میں اس کا معنی ہے بیابان اور وسیع مکان چونکہ نیکوکار روحانی وسعت اور کھلے دل کا حامل ہوتاہے۔ اس لئے اس خصوصیت کا اس پر اطلاق ہوتاہے۔
 اس کے بعد ایمان، اخلاق اور عمل کے لحاظ سے نیکیوں کے اہم ترین اصول چھ عنوانات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں۔ فرمایا: لیکن نیکی (اور نیک افراد) وہ لوگ ہیں جو خدا،روز قیامت، ملائکہ، آسمانی کتب اور انبیاء پر ایمان لے آئے ہیں (و لکن البر امن بااللہ و الیوم الاخر و الملائکة و الکتب و النبیین
 نیکیوں اور خوبیوں کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسان ایمان لائے مبداء و معاد پر، تمام خدائی پروگراہوں پر، پیغمبروں پر (جو ان پروگراموں کی تبلیغ و اجراء پر مامور تھے) اور فرشتوں پر (جو اس دعوت کی تبلیغ کا واسطہ شمار ہوتے ہیں) یہ وہ اصول ہیں جن پر ایمان لانے سے انسان کا سارا وجود روشن ہوجاتاہے اور یہی ایمان تمام اصلاحی پروگراموں اور اعمال صالح کی طرف تحریک پیدا کرنے کے لئے قوی عامل ہے۔
 یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ نیکوکار وہ لوگ ہیں بلکہ فرمایا: نیکی۔ وہ لوگ ہیں ، یہ اس لئے کہ او بیات عرب میں جب کسی چیز میں مبالغے اور تاکید کے آخری ورجے کو بیان کرنا ہوتو اسے مصدر کی شکل میں لاتے ہیں نہ کہ صفت کے طور پر کہتے ہیں۔ مثلا کہاجاتاہے کہ حضرت علی عالم، انسانیت کا عدل ہیں۔ یعنی آپ ایسے عدالت پیشہ تھے کہ گویا سراپا عدل تھے اور سر سے پاؤں تک عدالت میں ڈوبے ہوئے تھے اس طرح کہ اگر آپ کی طرف نگاہ کی جائے تو عدل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح ان کے مقابل میں کہاجاتاہے کہ بنی امیہ ذلت اسلام ہیں گویا ان کا پورا وجود ذلت و خواری میں ڈھل چکاتھا۔ اس لئے زیر نظر تعبیر سے ایمان محکم اور ایمان کی بلندتر قوت و طاقت مراد ہے۔ایمان کے بعد انفاق، ایثار اور مالی بخششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: چاہت و محبت کے با وجود اپنا مال رشتہ داروں یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کو دیدیتے ہیں (و اتی المال علی حبہ ذوی القربی و الیتمی و المسکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرقاب
 اس میں شک نہیں کہ مال و دولت کی پرواہ نہ کرنا سب کے لئے آسان کام نہیں خصوصا جب مقام ایثار ہو۔ کیونکہ اس کی محبت سب دلوں میں ہے۔ ”علی حبہ“ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اس دلی خواہش کے با وجود استقامت دکھاتے ہیں اور خدا کے لئے اس خواہش سے صرف نظر کرلیتے ہیں۔
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہاں حاجت مندوں کے چھ طبقے بیان کئے گئے ہیں۔ پہلے درجے میں وابستگان اور آبرومند رشتہ دار ہیں، دوسرے طبقے میں یتیم اور مسکین ہیں۔ اس کے بعد وہ ہیں جن کی ضرورت وقتی ہے۔ مثلا جن کا خرچ سفر میں ختم ہوجائے۔ اس کے بعد سائلین کا تذکرہ ہے۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ تمام ضرورت مند سوال نہیں کیا کرتے بلکہ بعض ایسے غیرت مند ہیں جو ظاہرا اغنیاء کی طرح ہیں جب کہ باطنی طور پر بہت ضرورت مند ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن ایک اور مقام پر کہتاہے:یَحْسَبُہُمْ الْجَاہِلُ اٴَغْنِیَاءَ مِنْ التَّعَفُّفِ نا واقف لوگ ان کی عفت و پاکدامنی کی وجہ سے انہیں اغنیاء اور تونگر خیال کرتے ہیں۔(بقرہ۔۲۷۳)
 آخر میں غلاموں کا ذکر ہے کہ اگر چہ ظاہرا ان کی مادی ضروریات ان کے مالک کے ذریعے پوری ہورہی ہوتی ہیں لیکن وہ آزادی و استقلال کے محتاج ہیں۔
 نیکیوں کی تیسری بنیاد قیام نماز شمار کی گئی ہے ( و اقام الصلوة)نماز تمام شرائط اور اخلاص و خضوع سے ادا کی جائے تو انسان کو ہر قسم کے گناہ سے باز رکھتی ہے اور خیر و سعادت کا شوق پیدا کرتی ہے۔
 چوتھا پروگرام زکوة اور دیگر واجب مالی حقوق کی ادائیگی ہے (و اتی الزکوة) ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کئی مقامات پر ضرورت مندوں کی مدد کے لئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن واجب حقوق کی ادائیگی میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ ان کے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو واجب حقوق کے علاوہ اور کسی قسم کی مدد کو تیار نہیں ہوتے اور وہ ایک پیسہ بھی کسی ضرورت مند کو دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ زیر بحث ، آیت میں ایک طرف مستحب امور پر خرچ کرنے والوں اور دوسری طرف واجب حقوق اداکرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے دونوں کو نیک لوگوں کی صف سے نکال دیتی ہے اور حقیقی نیک اسے قرار دیتی ہے جو اپنی ذمہ داری دونوں میدانوں میں اداکرے۔
 یہ امر قابل توجہ ہے کہ مستحب خرچ کے سلسلے میں علی حبہ (با وجود یکہ مال و ثروت سے محبت رکھتے ہیں) کا ذکر ہے لیکن واجب زکوة کے ضمن میں یہ بات نہیں کیونکہ واجب مالی حقوق کی ادائیگی ایک الہی و اجتماعی ذمہ داری ہے اور منطق اسلام کے روسے اصولی طور پر حاجت مند زکوة اور دیگر واجبات کی مقدار کے مطابق دولت مندوں کے اموال میں شریک ہیں اور شریک کو اس کے مال کی ادائیگی کے لئے ایسی تعبیر کی ضرورت نہیں۔
 پانچویں خصوصیت ایفائے عہد و پیمان گردانی گئی ہے۔ فرمایا: وہ لوگ جو وعدہ کرلیں تو اپنے عہد و پیمان کو بنھاتے ہیں (و الموفون بعہد ہم اذا اعہدوا) کیونکہ باہمی اعتماد اجتماعی زندگی کا سرمایہ ہے۔ وہ گناہ جو اطمینان اور اعتماد کے رشتے کو توڑ پھوڑدیتے ہیں اور اجتماعی روابط کی بنیاد کو نیچے سے کمزور کردیتے ہیں ان میں وعدے کی عدم پاسداری ہے۔ اسی لئے اسلامی روایات میں مسلمانوں کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ تین امور سب لوگوں کے بارے میں انجام دیں چاہے ان کے سامنے مسلمان ہو یا کافر اور نیک ہو یا بد، وہ تین چیزیں یہ ہیں۔
 ۱۔ ایفائے عہد
 ۲ ادائے امانت اور
 ۳۔ ماں باپ کا احترام
 ان نیک لوگوں کی چھٹی بات یہ بتائی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو محرومیت ، فقر و فاقہ، بیماری اور رنج و مصیبت کے وقت اور اسی طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان سخت حوادث کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے (و الصابرین فی الباساء و الضراء و حین الباس)۱۔
 ۱ باساء کا مادہ ہے بوس، اس کا معنی ہے فقر و فاقہ، فقراء کا معنی ہے درد و بیماری اور حین الباس کا معنی ہے وقت جنگ ( البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں)۔
 آیت کے آخر میں بات کو مجتمع کرتے ہوئے اور ان چھ بلند صفات پر تاکید کے طور پر فرماتاہے: یہ وہ لوگ ہیں جو سچ بات کرتے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں (اولئک الذین صدقوا و اولئک ہم المتقون)۔
 ان کی راست گوئی تو یہاں سے واضح ہوتی ہے کہ ان کے اعمال اور ان کا کردار ہر طرح سے ان کے اعتماد اور ان کے ایمان سے ہم آہنگ ہے۔ ان کا تقوی و پرہیزگاری اس بات سے عیاں ہے کہ وہ ضرورتمندوں، محروموں، انسانی معاشرہ اور اپنی ذات کے بارے میں اپنی الہی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوتے ہیں۔
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا چھ برجستہ صفات اصول اعتقاد و اخلاق اور عملی پروگراموں پر مشتمل ہیں۔ اصول اعتقاد کے سلسلے میں تمام بنیادی امور کا تذکرہ ہے اور عملی پروگراموں میں سے انفاق ، نماز اور زکوة کا ذکر ہے جو مخلوق کے خالق ہے اور مخلوق کے مخلوق سے رابطے کا نمونہ ہے۔ اخلاقی امور میں سے ایفائے عہد اور استقامت و پائداری کا تذکرہ ہے جو تمام تر اعلی اخلاق کی بنیاد ہے۔
 ۱۷۸۔یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاٴُنثَی بِالْاٴُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ اٴَخِیہِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَاٴَدَاءٌ إِلَیْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیفٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ
 ۱۷۹۔ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یَااٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ
 ترجمہ
 ۱۷۸۔اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں حکم قصاص تمہارے لئے لکھ دیاگیاہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ، پس اگر کوئی اپنے (دینی) بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور حکم قصاص خونبہا سے بدل جائے) تو اسے چاہئیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور دیت کی وصولی میں دیت دینے والے کی حالت کو پیش نظر رکھے) اور قاتل بھی ولی مقتول کو اچھے طریقے سے دیت ادا کرے (اور اس کی ادائیگی میں حیل و حجت سے کام نہ لے) تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اور اس کے بعد بھی جو تجاوز کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔
 ۱۷۹۔اور قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے، اے صاحبان عقل و خرد! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی راہ اختیار کرنا چاہئیے۔
 شان نزول
 زمانہ جاہلیت کے عربوں کی عادت تھی کہ ان کے قبیلے کا ایک آدمی قتل ہوجاتا تو وہ پختہ ارادہ کرلیتے کہ حق المقدور اس کا انتقام لیں گے اور یہ فکر یہاں تک آگے بڑھ چکی تھی کہ وہ تیار رہتے کہ ایک شخص کے بدلے قاتل کا سارا قبیلہ قتل کرڈالیں مندرجہ بالا آیت کے ذریعے قصاص کا عادلانہ حکم بیان کیاگیا۔
 اس زمانے کے دو مختلف دستوروں میں اسلام کا یہ حکم حد وسط تھا۔ اس دور میں بعض لوگ قصاص کو ضروری سمجھتے تھے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو جائز اور درست نہ جانتے تھے جب کہ بعض لوگ صرف دیت اور خونبہا کو ضروری خیال کرتے تھے۔ اسلام نے مقتول کے اولیاء کے راضی نہ ہونے کی صورت میں قصاص کا حکم دیا اور طرفین کی رضا اور قصاص کی معانی پردیت کو ضروری قرار دیا۔
 

دوبارہ حق پوشی کی مذمت قصاص تمہاری حیات کا سبب ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma