فضیلت ایه الکرسی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
اس ٓیت میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں کا بیان ہے کیا خالق کابھی کوئی خالق ہے ؟

”اللَّہُ لا إِلہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوم“
 یعنی وہ زات جع یگانہاور تنہا ہے اور تمام صفات کمال کی جامع ہے وہی عالم ہستی کو پیدا کرنے والی ہے لہٰذا عالم وجود میں کوئی اسکے علاوہ پرستش کے لائق نہیں ہے لا الہ الا اللہ اس ارشاد میں قرآن خلاّق عالم کی وحدت و یگانگی کو جو اسلام کی بنیاد ہے بیان کرتا ہے لیکن جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے لفظ ”اللہ“ میں بھی یہ حقیقت پوشیدہ ہے اس بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ لا الہ الا اللہ اس حقیہقت کی تاکید ہے
 حیّ“کا معنی ہے زندہ اور یہ لفظ ہر صفت مشبہ کی طرح دوام و ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے خدا کی حیات حقیقی کیونکہ اسکی حیات عین ذات ہے نہ کہ عارضی یا کسی دوسرے سے لی ہوئی سورہ ٴ فرقان آیہ ۵۸میں ہے
 ”و توکّل علیٰ الحیّ الذی لا یموت “ایک یہ پہلو ہے اور دوسرا حیات یہ ہے کہ حیات کامل وہ زندگی ہے جس میں موت کا تصور نہ ہو اس لئے حقیقی حیات اسی کی ہے جو ازل تا باد قائم و دائم ہے رہی انسان کی زندگی خصوصاً اس جہان میں جہاں موت بھی ہے ،یہ حقیہقی حیات نہیں ہو سکتی اسی لئے سورہ ٴ عنکبوت کی آیت ۶۴میں ہماری نظر سے یہ عبارت گذرتی ہے
 وما ھٰذہ الحیاة الدّنیا الاّ لھو و لعب و ان الدار الآخرہ لھی الحیوان “
 اس جہان کی زندگی لھو و لعب کے سوا کچھ نہیں ہے ( ایک لحاظ سے )حقیقی زندگی تو دار آخرت کی زندگی ہے
 ان دو وجوہ کی بناء پر حقیقی زندگی خدا ہی کے لئے مخصوص ہے
 
خدا کے زندہ ہونے کا مفہوم
 عام طور پر موجود زندہ اس چیز کو کہتے ہیں جو نمو ، تغزیہ ، تولید مثل ،جذب و دفع اور کبھی کبھی حس و حرکت رکھتی ہو لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ رہے کہ ممکن ہے کوتاہ نظر افراد خدا کے بارے میں بھی ایسی ہی حیات سمجھتے ہوں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ میں ایسی کوئی صفت موجود نہیں یہی قیاس انسان کو خدا شناسی کے بارے میں اشتباہ میں مبتلاء کر دیتا ہے کیونکہ وہ خدا کی صفات کو اپنی صفات پر قیاس کرنے لگتا ہے حیاے اپنے وسیع اور واقعی معنی کے لحاظ سے علم و قدرت سے عبارت ہے لہٰذا جو وجود لا متناہی علم وقدرت کا حامل ہے وہ حیات کامل رکھتا ہے خدا کی حیات اسکے علم وقدرت کا مجموعہ ہے اور در حقیقت علم و قدرت ہی کے ذریعے موجود زندہ اور غیر زندہ میں امتیاز کیا جا سکتا ہے رہا نمو ،حرکت تغذیہ، تولید مثلاور حرکت تو یہ ناق ص اور محدود موجودات کے آثار ہیں اور یہ آثار نقائص پر دلالت کرتے ہیں کیونکہ غزا ،تولید مثل اور حرکت در اصل کسی نہ کسی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہوتی ہے لیکن وہ ذات جس میں کوئی قص اور کمی نہیں اس میں یہ امور نہیں پاے ٴ جاتے -
 

اس ٓیت میں مسلمانوں کی ذمہ داریوں کا بیان ہے کیا خالق کابھی کوئی خالق ہے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma