قوموں کی زندگی کے لئے بنیادی احکام :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
آیات کا تاریخی پر منظر:  قرآن کہتاہے:

 یہ آیات اگرچہ بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تو ہم ایسے کلی قوانین کے حامل ہیں جو تمام دنیا کی قوموں کے لئے ہیں۔ قوموں کی زندگی ، بقا ، کامیابی اور شکست کے عوامل ان سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ہر ملت کے بقا اور سربلندی اس میں ہے کہ وہ اپنا سہارا خدا کو قرار دے جو سب سے بڑی طاقت و قوت ہے اور ہر حالت میں اس سے مدد لے یہ ایسی قدرت پر بھر و سہ ہوگا جس کے لئے فنا ء و زوال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف اسی کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ اس طرح انہیں کسی کا خوف اور وحشت نہ ہوگی۔ ظاہر ہے ایسی قدرت و طاقت عظیم خالق کائنات کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتی ایسا سہارا فقط خدا ہے (َ لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ الله)

دوسری طرف قوموں کی بقاء اور ہمیشگی کے لئے افراد ملت کے ما بین خصوصی وابستگی ضروری ہے ، ایسا یوں ممکن ہے کہ ہر شخص اپنے ماں باپ سے جن زیادہ قریب کی وابستگی ہے، عزیز و اقارب سے جو وابستگی کے اعتبار سے ایک فاصلے پرہیں اور پھر معاشرے کے تمام افراد سے نیکی اور اچھائی کے ساتھ پیش آئے تا کہ سب ایک دوسرے کے دست و بازوبنیں ( وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَی  وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (

قوم کے کمزور و ناتواں افراد کی تقویت روحانی اور مادی طور پر اس ہمیشگی میں کافی حصہ رکھتی ہے اور اس طرح دشمن کے لئے کوئی کمزور جگہ باقی نہیں رہتی اور قوم میں کوئی فرد مشکلات اور سختی میں نہیں رہتا کہ وہ ان مشکلات کے نتیجے میں اپنے آپ کو دشمن کے دامن میں جا گرائے ( وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِین(

ہر قوم کے زندہ رہنے کے لئے مالی و اقتصادی بنیاد کا استحکام بھی بڑا حصہ ادا کرتاہے جو زکوة کی ادائیگی سے انجام پذیر ہوتاہے )َ وَآتُوا الزَّکَاة)

ایک طرف کامیابی کے لئے یہ امور ہیں اور دوسری طرف قوموں کی شکست اور بربادی کا راز اس وابستگی کے ٹوٹ جانے اور کشمکشوں اور اندرونی جنگ شروع ہونے میں ہے۔ وہ قوم جس میں داخلی جنگ شروع ہوجائے اور تفرقہ بازی کا پتھر اس میں پھینک دیاجائے، اس کے افراد ایک دوسرے کی مدد کے بجائے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جائیں، ایک دوسرے کے مال اور زمین پر قبضہ جمانے پر تل جائیں ،۔


 

۱۔ جملہ (ما جزا) میں لفظ (ما) ممکن ہے نافیہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ استفہامیہ ہو لیکن نتیجے کے طور پر ہر دو طرح سے کوئی فرق نہیں۔

آیات کا تاریخی پر منظر:  قرآن کہتاہے:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma