نماز لوگوں کی روح کو تقویت بخش دے۔

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
نماز انسان کو خالق کائنات سے مربوط کرنے کا ایک ذریعہ ہے یہ آیت احکام طلاق کا خاتمہ ہے

ہو سکتاہے کچھ لوگ تصور کریں کہ نماز کے بارے میں اس قدر تاکید اور اصرار ایک طرح کی سخت گیری ہے اور ایسے حالات میں یہ انسان کو اپنے اہم دفاعی فرائض سے غافل کرسکتی ہے۔ در اصل یہ بہت بڑا اشتباہ ہے کیونکہ عموما ان حالات میں انسان ہر چیز سے زیادہ روحانی تقویت کا محتاج ہوتا ہے اور اگر خوف و ہراس ، وحشت اور روحانی کمزوری اس پرغالب آ جائے تو اس کی شکست تقریبا یقینی ہوتی ہے۔ لہذا نماز اور خدا سے رشتہ جوڑنے سے بہتر عمل کونسا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ تمام جہان ہستی پر خدا کا حکم کار فرما ہے اور تمام چیزیں اس کے ارادے کے سامنے سہل معمولی اور آسان ہیں۔ وہ طاقت رکھتاہے کہ مجاہد سپاہیوں اور خطرے میں گھرے ہوئے لوگوں کی روح کو تقویت بخش دے۔
صدر اول کے بہت سے مجاہدات میں پیش آنے والے شواہد سے قطع نظر یہودیوں سے مسلمان کی حالیہ چوتھی جنگ جو اس سال (۱۳۹۳ہجری ) کے ماہ رمضان میں ہوئی کی کی خبروں پر نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ نماز اور احکام اسلام کی طرف توجہ نے مسلمانوں کی بہت روحانی تقویت بخشی جو دشمنوں پر کامیابی کے لیے بہت مئوثر رہی۔
آیت کا یہ حصہ نشاندہی کرتا ہے کہ پیدل چلتے ہوئے اور سواری پر نماز کی ادائیگی حالت خوف وخطرسے مخصوص ہے اور جب امن و امان قائم ہو جائے اور راحت و آرام میسر آجائے تو پھر عام حالت کی طرح نماز ادا کرنا چاہیے ” فاذا امنتم فاذکرواللہ “
اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم بہت سی چیزوں کو نہیں جانتے تھے اور خدا نے تمہیں ان کی تعلیم دی ہے امن اور خوف میں نماز پڑھنے کا طریقہ بھی اس نے تمہیں سکھایاہے۔ واضح ہے کہ اس تعلیم کا شکرانہ یہی ہے کہ اس کے مطابق عمل کیا جائے اور جیسا حکم دیا جائے ویسا عمل کیا جائے۔ ” کما علمکم مالم تکونوا تعلمون “
۲۴۰۔ والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا وصیةً لازواجھم متاعا الی الحول غیر اخراج فان خرجن فلاجناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن من معروف واللہ عزیز حکیم
ترجمہ :
۲۴۰۔ اور تم میں سے جو لوگ آستانہ موت تک جاپہنچتے ہیں اور اپنی بیویاں پیچھے چھوڑجاتے ہیں۔ ان کے لےے وصیت کرنی چاہےے کہ ایک سال تک انہیں (زندگی کے اخراجات سے) بہرہ مند کریں بشرطیکہ وہ ( شوہر کے گھر سے ) باہر نہ نکلیں ( اور نئی شادی کے لیے اقدام نہ کریں ) اور اگر وہ باہر چلی جائیں ( تو مصارف حیات لینے کا حق نہیں رکھتیں) لیکن ان پر اس بارے میں کوئی گناہ (بھی) نہیں کہ وہ اپنے لےے کوئی شائستہ اقدام کریں اور خدا توانا و حکیم ہے۔
تفسیر:
آیت کے پہلے حصے میں حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو موت کے آستانے تک جا پہنچیںاور اپنی بیویاں پیچھے چھوڑجائیں تو انہیں وصیت کرناچاہےے کہ ان کے پسماندگان ایک سال تک ان کے مال سے ان کی بیویوں کے اخراجات ادا کریں۔ اس لےے لفظ” یتفون “ مرنے کے معنی میں نہیں بلکہ ذکر وصیت کے قرینہ سے موت کے آستانہ پر جا پہنچنا مراد ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ عورت بھی شوہر کی موت کے بعد ایک سال تک اس کے گھر میں رہے اور اس سے باہر نہ نکلے ” غیر اخراج
” فان خرجن فلا جناح علیکم فیما فعلن فی انفسھن “
یہ جملہ دو معانی پرمنطبق ہو سکتا ہے۔
۱۔ عورت کا حق ہے کہ مرد کے وارث ایک سال تک اس کے مصارف ادا کریں لیکن اگر عورت اپنی خوشی سے ایک سال کا خرچ نہ لے اور شوہر کے گھر میں بھی نہ رہے تو پھر کوئی اس کا جواب دہ نہیں ہے اور اگر عورت دوسری شادی کر لے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس تفسیر کے مطابق آیت میں اجازت دی گئی ہے کہ عورت پہلے سال کے دوران میں نان ونفقہ سے صرف نظر کرکے سابق شوہر کے گھر چلی جائے۔
دوسرے معنی کے مطابق ایک سال تک کی مدت گزارناعورت پر لازمی ہے دوسرے لفظوں میں ایک سال تک مکمل عدت گزارناعورت کے لےے ” حکم “ کی حیثیت رکھتا ہے نہ یہ کہ اس کا حق ہے جیسا کہ پہلے مفہوم میں ظاہر ہوتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کونسی بفسیر آیت کے مفہوم سے میل کھاتی ہے اور مناسب ہے۔
کیا یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے ؟
بعض مفسرین کا کہتے ہیں کہ یہ آیت اسی سورہ کی آیت ۲۳۴ کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے۔اس میں عدت وفات چار ماہ اور دس دن معین کی گئی ہے اگرچہ وہ آیت تنظیم اور ترتیب کے اعتبار سے پہلے آئی ہے ۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ سورتوں کی آیات کی تنظیم تاریخ نزول کے مطابق نہیںہے۔بلکہ بغض اوقات وہ آیات جو بعد میں نازل ہوئی ہیں سورہ کے آخر میں ہیں اور ایسا آیات کی مناسبت کے اعتبار سے کیا گیا ہے۔ اور یہ فرمان پیغمبر کے مطابق ہی ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ جیسا آیت ۲۳۴ کی تفسیر میں گذر چکا ہے زمانہ جاہلیت میں عدت وفات ایک سال سمجھی جاتی تھی اور اس مدت میں عورت کے لیے خرافات پر مبنیاور تکلیف و رسوم رائج تھیں۔ اسلام نے جاہلیت کی اس رسم کو ختم کر دیا۔ پہلے عدت کو ایک سال کے لےے مقرر قراردیا بعد از اں اس ایک سال کی مدت کو ختم کرکے چار مہینے اور دس دن کی عدت معین کی اور اس عرصے میں عورت کو صرف زیب و زینت سے منع کیا گیا۔
لیکن آیت کی منسوخی کے بارے میں یہ دلائل قابل قبول نہیں کیونکہ نسخ تو اس وقت ہو سکتاہے جب ہم آیت کے دوسرے معنی مراد لیں یعنی اس آیت کا مفہوم یہ سمجھیں کہ ایک سال تک گھر سے نہ نکلنا عورت کے ذمے فرض ہے ، یہ عورت کا حق نہیں ہے۔ اگر پہلا مفہوم مراد لیا جائے جب کہ وہ آیت سے بہت زیادہ مناسبت بھی رکھتاہے تو پھر نسخ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کیونکہ اس آیت میں اخراجات کے حصول اور امکان سے فائدہ اٹھانے کو ایک سال تک کی عدت سے مشروط کر دیا ہے۔ اس میں عورت کو حق دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو چار ماہ اور دس دن بعد شوہر کے گھر سے چلی جائے اور نئی شادی کرلے بہذا اس صورت میں فطری طور پر اس کی زندگی کے مصارف پہلے شوہر کے مال سے منقطع ہو جائیں گے۔
اصطلاح کی رو سے چار ماہ دس دن کی عدت رکھنا عورت کے لےے ایک حکم الزامی ہے اور اس میں عورت کا انتخاب کوئی اثر نہیں رکھتا البتہ ایک سال تک اسے جاری رکھنا یہ عورت کا حق ہے اور وہ اس حق سے استفادہ کرسکتی ہے اور یہ عدت اختیار کرکے اپنے لےے اخراجات حاصل کر سکتی ہے اور اسے یہ بھی حق پہنچتا ہے کہ ان سے صرف نظر کرکے شوہر کے گھر چلی جائے اور نئی شادی کرلے ۔
” من معروف “ یہ تعبیر اس بات کی طرف کو اشارہ ہے کہ عورتیں مجاز ہیں کہ ہر شائستہ اور مناسب اقدام کر سکیں۔ ( یہاں اس سے مراد شادی کرنا ہے ) اور اس سلسلے میں انہیں مکمل آزادی حاصل ہے۔
” واللہ عزیز حکیم “ آیت کے آخر میں اس بناء پر کہ ایسی عورتیں اپنی آئندہ کی زندگی سے پریشان نہ ہوں ان کی دلجوئی کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہےگ خدا قادر ہے کہ پہلے شوہر کی وفات کے بعد ان کے لےے کوئی اور راہ کھول دے اور انہیں کوئی مصیبت پہنچی ہے تو اس میں کوئی حکمت تھی، خلاصہ یہ کہ اگر خداوند عالم حکمت کی وجہ سے ایک دروازہ بند کرتا ہے تو اپنے لطف و کرم سے دوسرا کھول دیتا ہے اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
۲۴۱۔ وللمطلقات متاع بالمعروف حقا علی المتقین
۲۴۲۔کذالک یبین اللہ لکم آیاتہ لعلکم تعقلون
ترجمہ:
۲۴۱۔( شوہر کی طرف سے ) تمام مطلقہ عورتوں کو ہدیہ دیا جانامناسب ہے۔ یہ پرہیزگار مردوں پرحق ہے ۔
۲۴۲۔ اس طرح خدا اپنی آیات تمہارے سامنے بیان کرتاہے کہ شاید تم غور و فکر کرو۔

 

 

نماز انسان کو خالق کائنات سے مربوط کرنے کا ایک ذریعہ ہے یہ آیت احکام طلاق کا خاتمہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma