انفاق۔طبقاتی تفاوت کا ایک حل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
شبہٴ آ کل وماٴکول آیت کے آخری حصے میںپرور دگا ر کی وسعت

معاشرے کی ایک مشکل جس سے انسان ہمیشہ دوچا ر رہتا ہے اور باوجود اتنی صنعتی اور مادی ترقی کے انسان اس میں مبتلا ہے وہ طبقاتی تفاوت ہے ایک طرف فقر ،بے چارگی اور تنگدستی ہے اوردوسری طرف ما ل ودولت کے ڈھیر ہیں ۔
کچھ وہ لوگ ہیں کہ انہیں اپنی دولت کا اندازہ نہیں اور کچھ وہ ہیں کہ فقروفاقہ کی ایسی تکلیف دہ حالت سے دوچار ہیں کہ ضروریا ت زندگی مثلا َکھانا ،رہائش اور سادہ لباس بھی مہیا کرنا ان کے لئے ممکن نہیں۔
واضح ہے کہ جس معاشرے کا ایک حصہ دولت وثروت کے پائے پر اور دوسرا اہم حصہ فقروفاقہ کے پائے پر کھڑاہوزندہ نہیں رہ سکتا اور ہر گزکسی حقیقی سعادت تک نہیں پہونچ سکتا۔ایسا معاشرہ ا ضطراب،پریشانی ،نفرت اور آخرکار دشمنی کا شکارہو جاتا ہے اور اس میں جنگ ناگزیر ہوتی ہے ۔اگر چہ گذشتہ زمانوں میں بھی انسانی معاشروں میں یہ اختلاف رہا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانے میں یہ طبقاتی فاصلہ زیادہ ہوگیا ہے او ر خطرنا ک ترین صورت اختیار کرچکاہے۔
حالت یہ ہے کہ ایک طر ف سے حقیقی معنی میں انسانی ہمدردی ،تعاون اور مدد کے دروازے بند ہو چکے ہیں ۔سود جوکہ طبقاتی اختلاف کا بہت بڑا سبب ہے اس کا دروازہ کئی مختلف شکلوں میں کھل چکا ہے ۔کمیو نزم جیسے نظاموں کی پیدئش ،خون ریزیا ں ،چھوٹی اوربڑی وحشت ناک جنگیں اس صدی کی پیداوار ہیں۔یہ جنگیں ابھی تک دنیا کے مختلف حصوں میں جاری ہیں ۔ان سب حالات کی زیادہ تربنیادیں اقتصادی ہیں اور یہ انسانی معاشروں میں سے اکثریت کی محرومیت کا نتیجہ ہیں ۔
دنیا کے اقتصادی ماہرین اور مکاتب اس عظیم اجتماعی مشکل کی چارہ جوئی اور حل کی فکر میں لگے ہوئے ہیں ، ہرایک نے ایک راستہ انتخاب کرلیا ہے ۔کمیونزم نے انفرادی ملکیت کو لغو قراردے دیا ہے اور سرمایہ داری نے بھاری مالیات وصول کرکے عام لوگوں کے فائدہ کے نا م پر ادارے قائم کردیئے ہیں(جو طبقاتی تفاوت کے حل کے بجائے زیادہ تر دکھاوے پر مبنی ہیں)یہ سب اپنے تئیں طبقاتی فاصلوں کو سمیٹنے کے در پے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس راستے میں موٴثرقدم نہیں اٹھا سکاکیونکہ روح مادہ پرستی جو اس وقت دنیا پرحکمران ہے اس کی موجودگی میں اس مسئلے کا حل ممکن نہیں ۔
قرآن مجید کی آیات میں غو ر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں سے غیر عادلانہ اختلاف ختم ہو جائیں جو اجتماعی بے انصافی کی وجہ سے غریب اور امیر طبقے میں پائے جا تے ہیں اورجولو گ دو سروں کی مدد کے بغیر اپنی ضروریا ت زندگی پوری نہیں کرسکتے ان کی سطح ِ زندگی بلند ہوجائے اور کم ا ز کم لوگوںکے پاس لوازمات زندگی تو ضرور ہوناچاہئیں۔
اس مقصد تک پہنچنے کے لئے اسلام کے پاس ایک وسیع پروگرام ہے۔اسلام نے سود خواری مطلقاََحرام قراردی ہے ۔زکوٰة وخمس وغیرہ جوکہ اسلامی مالیا ت ہیں ان کی ادائیگی واجب قراردی ہے ۔انفاق ،خرچ کرنے ،وقف کنے ،قرض حسنہ دینے اور مختلف قسم کی مالی امداد دینے کا شوق پیدا کرنا بھی اسی پروگرام کاایک حصہ ہے اوران سب سے زیادہ روح ایمانی پیدا کرنا اور انسانی بھائی چارے کو زندہ کرنا اسلامی پروگرام کی عظمت ہے ۔
مثلالذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبة
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس آیت میں انفاق اور خرچ کرنے سے مراد جہاد میں خرچ کرنا ہے ۔اس لئے کہ اس سے قبل آیات میں جہاد کی گفتگو آئی ہے۔لیکن واضح ہے کہ یہ مناسبت تخصیص کاسبب نہیں بنتی کیونکہ ”سبیل اللہ‘ ‘مطلقاآیا ہے جس میں ہر نیک مصرف شامل ہے ۔علاوہ ازیں بعد کی آیات گواہی دیتی ہیں کہ ان تمام آیات میںجہاد کے علاوہ دوسری بحث ہورہی ہے ا ور ”انفاق“اور خرچ کر نے کی بحث کامستقل طور پر پیچھا کیاگیا ہے۔تفسیر مجمع البیان کے مطابق روایات میں بھی آیت کے عمومی مفہوم کی طرف اشارہ ہواہے ۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ اس آیت میں راہ خدا میں خرچ کرنے والے ا شخاص کو پربرکت دانے سے تشبیہ دی گئی ہے جسے مستعد اورقابل زمین میںڈالا جائے۔چاہیے تو یہ تھا کہ ان اشخاص کو دانے سے تشبیہ نہ دی جا تی بلکہ ان کے ” انفاق “اور خرچ کرنے کو دانے سے تشبیہ دی جا تی یا خود انہیں بیج ڈالنے والے انسان سے تشبیہ دی جاتی ۔ اسی لیے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت میں کوئی لفظ حذف ہو گیا ہے یا لفظ”صدقات“”الذین “سے پہلے یا لفظ”باذر “”حبہ “سے قبل فرض کرناچاہیئے لیکن آیت میں ایسی کوئی دلیل اور قرینہ نہیںکہ حذف یا فرض کرنے کا معاملہ درپیش ہو ۔
انفاق اور خرچ کرنے والے افراد کو پر بر کت دانوں سے تشبیہ بڑی جا ذب نظر ہے اور یہ ایک عمیق اورگہری بات ہے ۔
قرآن یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہر شخص کا عمل اس کے وجود کا پرتو ہے اور عمل میں جتنی وسعت پیداہو گی دراصل ا تنی ہی وسعت انسانی وجود میں پیدا ہوتی ہے ۔کیا ایسا نہیں کہ انسانی اعمال انسانی قوتوں کی تبدیل شدہ صورت ہیں ۔
زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ قر آن انسان کے عمل کو اس کے وجود سے جدا نہیں سمجھتا اور دونو ںکو ایک ہی حقیقت کی مختلف شکلیں قرار دیتاہے ۔ اس بناء پر آیت بغیر کسی حذف اور مفروضے کے قابل تفسیر ہے اور یہ ا یک عقلی حقیقت کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسے نیک لوگ ایک پر ثمر بیج کی طرح ہیں جو ہر طرف اپنی جڑیں اور شاخیں پھیلا تا ہے ا ور تمام جگہیں اس کے پرو بال کے سائے میں آجاتی ہیں ۔
انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مائةحبة
اس جملے میں قرآن اس پر بر کت دانے کی توصیف یوں کر تا ہے :اس سے سات سنبل اورخوشے اگتے ہیں ، ان میں سے ہر ایک خوشے میں سو دانے ہیں۔یوں وہ اپنی اصل سے سات سو گنا ہوجاتے ہیں
کیا یہ ایک فرضی تشبیہ ہے
کیاایساکوئی دا نا نہیں ہے جس سے ساسو دانے نکلیں یا پھر اس سے مراد ”ارزن“ (۱)کے دانو ں جیسے دانے ہیں جن میں ایسی تعداد دیکھی جاسکتی ہے چونکہ کہتے ہیں کہ گندم وغیرہ میں تعداد نظر نہیں آتی۔
لیکن یہ با ت قابل توجہ ہے کہ چند سال پیشترایک مرتبہ کثرت سے بارشیں ہو ئی تو اخبارات یہ میں خبر شائع ہوئی کہ بو شہر (۲) کے گرد ونواح کے بعض کھیتو ں میں گندم کے تنے بہت بلند اور پر خوشہ تھے اور ان میں سے بعض اوقات ایک ہی تنے میں گندم کے چار ہزار تک دانے موجو د تھے ۔یہ خود ایک دلیل ہے کہ قرآن کی تشبیہ واقعاََایک مکمل تشبیہ ہے ۔
واللہ یضاعف لمن یشاء واللہ واسع علیم “:
”یضاعف“کا مادہ ہے ”ضعف “(بروزن ”شعر “)یہ دوگنا یا چند گنا کے معنی میں ہے ۔اس لئے اس جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا جس لے لئے چاہے ا س برکت کو زیا دہ کردے اور دوگنا یا کئی گنا کردے ۔مندرجہ بالا تحریر کو نظر میں رکھتے ہوئے کہاجا سکتاہے کہ کچھ دانے ایسے بھی ہیں جو سات سو سے یا کئی گنا زیادہ ثمر دیتے ہیں
اس بنا ء پر یہ تشبیہ ایک حقیقت کی حیثیت رکھتی ہے ۔


 (۱) باریک دانو ں والا ایک غلہ (مترجم )

(۲)ایران کا ایک شہر(مترجم)

شبہٴ آ کل وماٴکول آیت کے آخری حصے میںپرور دگا ر کی وسعت
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma