یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصا نماز کی اساس جمع و جماعت پر رکھی گئی ہے یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو جماعت و اجتماع کے ساتھ شمار کرے چہ جائے کہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔ اس بناء پر ہر قسم کی انفرادیت علیحدگی، گوشہ نشینی اور اس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پاتی ہیں۔
نماز میں اذان و اقامت (جو نماز کے لئے اجتماع کی دعوت ہے)سے لے کر حی علی خیرالصلواة(نماز کی طرف جلدی آوٴ)سے گزرتے ہوئے سورہ الحمد تک جو نماز کی ابتداء اور السلام علیکم تک جو نماز کااختتام ہے، سب اس امر کی دلیل ہے کہ یہ عبادت در اصل اجتماعی پہلو رکھتی ہے یعنی اسے صورت جماعت میںانجام پذیر ہونا چاہئے اگر چہ یہ صحیح ہے کہ نماز فرادی بھی اسلام میں صحیح ہے لیکن عبادت فرادی جنبہ فرعی کی حامل ہے اور ایسی عبادت دوسرے درجے کی عبادت قرار پاتی ہے۔