مذکورہ بالا شان نزول کے مطابق آیت قریش کے خودخواہ اور دنیا پرست اشراف کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ امر اس سے مانع نہیں کہ یہ گذشتہ آیت کی بحث کی تکمیل کرتی ہے جو یہودیوں کے بارے میں تھی نیز یہ اس سے بھی مانع نہیں کہ یہ ایک کلیہ قاعدہ کے طور پر ہے اور ایک عمومی حکم جو سب کے لیے ہے بیان کرتی ہے۔ اس کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ کافروں کی نگاہ کا افق مادی دنیا کی چار دیواری سے بالاتر نہیں ہے اس لیے ان کے لیے مادی زندگی بہت دلپذیر، خوبصورت اور زیبا ہے اور یہی زندگی ان کے نزدیک تمام قدروں کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لیے ایک مقیاس و میزان ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی پسماندہ ، بیمار اور علیل فکر کے مطابق دولت و ثروت سے تہی افراد کی کوئی حیثیت و شخصیت نہ تھی لہذا وہ ان کا مذاق اڑاتے اور تمسخر کرتے ۔ معنوی و انسانی اقدار ان کی نظر میں ہیچ تھیں حالانکہ ان دو طرح کی اقدار میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان کی کوتاہ نظر ان بلندیوں اور زیبائشوں کو دیکھنے کی قدرت نہ رکھتی تھی ۔ ان کے جواب میں قرآن دو نکات کی طرف اشارہ کرتاہے۔
۱۔ دوسرے جہان میں جہاں معنوی اور روحانی حقائق اور کمالات اپنی اصلی اور حقیقی صورت اختیار کرلیں گے وہاں مومنین ان سے بلند درجات پر فائز ہوں گے کیونکہ یہ زمین کے تہوں میں چل رہے ہوں گے اور وہ آسمان کے اوپر ہوں گے
”وَالَّذِینَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“
۲۔علاوہ از یں مادی فواید سے لطف اندوز ہونا کسی کی منزلت کی نشانی اور ایمانی قدر و قیمت کی علامت نہیں ہے کیونکہ اس جہاں میں روزی کی تقسیم کفرو ایمان اور معنوی و انسانی اقدار کی بنیاد پر نہیں ہے۔
”وَاللهُ یَرْزُقُ مَنْ یَشَاءُ بِغَیْرِ حِسَاب“
آیت کے اس جملے میں ممکن ہے ایک اور معنی کی طرف بھی اشارہ ہو کہ ان محرومیوں کی تلافی خداوند عالم یوں کرتا ہے کہ ان سے محروم افراد گناہ اور حرام سے آلودہ ہونے سے بچ جاتے ہیں یا پھر مخالفوں اور دشمنوں سے پر ما حول میں بھی وہ ایمان لے آتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں آخرت کے گھرمیں بے حساب رزق بخشاجائے گا۔
یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے۔ وہ نہ کہ زین(زینت دیا گیا) ۔۔۔۔ یہ لفظ فعل مجہول ہے، اس سے یہاں کیا مراد ہے اور اس کا فاعل کون ہے۔
کون ہے جو دنیاوی زندگی کو کافروں کی نگاہ میں زینت دیتاہے۔ اس سوال کا جواب سورہ آل عمران کی آیہ ۱۴ کے ذیل میں ملاحظہ کیجئے گا۔
۲۱۳۔ کَانَ النَّاسُ اٴُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَاٴَنزَلَ مَعَہُمْ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیہِ وَمَا اخْتَلَفَ فِیہِ إِلاَّ الَّذِینَ اٴُوتُوہُ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَتْہُمْ الْبَیِّنَاتُ بَغْیًا بَیْنَہُمْ فَہَدَی اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیہِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِہِ وَاللهُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ
ترجمہ
۲۱۳۔(ابتداء میں) لوگوں کا ایک ہی گروہ تھا (اور ان کے در میان کوئی تضاد نہ تھا۔ رفتہ رفتہ گروہ اور طبقات پیدا ہوتے گئے) پھر ان میں اختلافات (اور تضادات)وجود میں آئے۔ خدا نے انبیاء کو بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو بشارت دیں اور ڈرائیں نیز ان پر آسمانی کتاب بھی نازل کی جو انہیں حق کی طرف دعوت دیتی تھی، یہ کتاب لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے تھی (ایمان والوں نے تو اس سے اختلاف نہیں کیا) صرف ایک گروہ نے حق سے انحراف اور ستمگری کرتے ہوئے اس سے اختلاف کیا جب کہ انہیں کتاب دی گئی تھی اور واضح نشانیاں ان تک پہنچ چکی تھیں جو لوگ ایمان لاچکے تھے خدا نے اختلافی چیز میں اپنے حکم سے ان کی رہبری کی (لیکن بے ایمان لوگ اسی طرح گمراہی اور اختلاف میں باقی رہے) اور خدا جسے چاہتا ہے راہ راست کی طرف ہدایت کرتاہے