یہ بات قابل غور ہے کہ زمانہ ٴ جاہلیت اور ادبیات کے لحاظ سےایک عہد زریں تھا۔ وہی پا برہنہ اور نیم وحشی بادیہ نشین بدو تمام تر اقتصادی و معاشرتی محرو میوں کے باوجود ادبی ذوق اور سخن سنجی سے سرشار تھے۔یہاں تک کہ آج بھی ان کے اشعار ان کے سنہری زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے بہترین اور قیمتی اشعار ادبیات عرب کا سرمایہ ہیں اور حقیقی عربی ادب کے متلاشیوں کے لئے ایک گراں بہا ذخیرہ ہیں۔ یہ بات اس وقت کے عربوں کے تفوق ادبی اور ذوق سخن پروری کی بہترین دلیل ہے۔
عربوں کے زمانہ جاہلیت میں ایک سالانہ میلہ لگتا تھا جو بازار عکاظ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ ایک ادبی اجتماع کے ساتھ ساتھ سیاسی و عدالتی کانفرنس بھی تھی۔ اسی بازار میں بڑے بڑے اقتصادی سودے بھی ہوتے، شعراء اور سخنور اپنی اپنی تخلیقات اس کانفرنس میں پیش کرتے ان میں سے بہترین کا انتخاب ہوتا۔ جسے شعر سال کا اعزاز حاصل ہوتا۔ ان میں سے سات یا دس قصیدے سبعہ یا عشرہ معلقہ کے نام سے مشہور ہیں۔ اس عظیم الشان ادبی مقابلے میں کامیابی شاعر اور اس کے قبیلے کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز تصور کی جاتی تھی۔
ایسے زمانے میں قرآن نے اپنی مثل لانے کی دعوت انہی لوگوں کو دی اور سب نے اظہار عجز کیا اور اس کے سامنے سرجھکالئے ۔ اس کی مزید تشریح، اس سورہ کی آیت ۲۳ کے ذیل میں آئے گی جہاں قرآن کے چیلنج اور عرب سخنوروں کے عجز کا تذکرہ ہے۔