غیر خدائی رنگ دھو ڈالو

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 حنیف کا مادہ ہے حنف (برو زن ہدف) قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ

گذشتہ آیات میں مختلف پیروکاروں کو تمام انبیا کے پروگراموں کے سلسلے میں جو دعوت دی گئی تھی اس ضمن میں فرماتاہے: صرف خدائی رنگ قبول کرو (جو ایمان اور توحید کا خالص رنگ ہے) (صبغة اللہ)۱۔
۱س کے بعد مزید کہتا ہے: کو نسا رنگ خدائی رنگ سے بہتر ہے اور ہم تو فقط اس کی پرستش و عبادت کرتے ہیں (اور اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں) (و من احسن من اللہ صبغة و نحن لہ عبدون
اس طرح قرآن حکم دیتاہے کہ نسلی ، قبائلی اور ایسے دیگر رنگ جو تفرقہ بازی کا سبب ہیں ختم کردیں اور سب کے سب صرف خدائی رنگ میں رنگ جائیں۔
مفسرین نے لکھاہے کہ عیسائیوں کا معمول تھا کہ وہ اپنی اولاد کو غسل تعمید دیتے تھے اور کہتے تھے اس خاص رنگ سے غسل دینے سے نو مولود کے وہ ذاتی گناہ دھل جاتے ہیں جو اسے حضرت آدم سے ورثے میں ملے ہیں۔
قرآن اس بے بنیاد منطق پر خط بطلان کھینچتاہے اور کہتاہے کہ خرافات ، بیہودگی اور تفرقہ اندازی کے ظاہری رنگوںکے بجائے رنگ حقیقت اور رنگ الہی قبول کرو تا کہ تمہاری روح اور نفس ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔ واقعا یہ کیسی خوبصورت اور لطیف تعبیر ہے۔ اگر لوگ خدائی رنگ قبول کرلیں یعنی وحدت، عظمت، پاکیزگی اور پرہیزگاری کا رنگ ، عدالت مساوات برادری اور برابری کا رنگ اور توحید و اخلاص کا رنگ اختیار کرلیں اور اس سے تمام جھگڑے، کشمکش (جو کئی رنگوں میں اسیر ہونے کا سبب ہیں) ختم کرسکتے ہیں اور شرک ، نفاق اور تفرقہ بازیوں کو دور کرسکتے ہیں۔
امام صادق(ع) سے مروی د متعدد احادیث میں انہی طرح طرح کے رنگوں کو دور کرنے کے بارے میں فرمایا گیاہے۔ یہ روایات اس آیات کی تفسیر میں منقول ہیں۔ آپ نے فرمایا:
صبغة اللہ سے مراد اسلام کا پاکیزہ آئین ہے۔۲
یہودی و غیرہ بعض اوقات مسلمانوں سے حجت بازی کرتے اور کہتے کہ پیغمبر ہماری قوم میں مبعوث ہوتے تھے۔ ہمارا دین قدیم ترین ہے اور ہماری کتاب آسمانی کتابوں میں سے زیادہ پرانی ہے اگر محمد بھی پیغمبر ہوتے تو ہم میں سے مبعوث ہوتے اور کبھی کہتے کہ عربوں کی نسبت ہماری نسل ایمان و وحی قبول کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہے کیونکہ عرب تو بت پرست تھے ۔
جب کہ ہم نہ تھے کبھی وہ خود کو خدا کی اولاد کہتے کہ بہشت تو فقط ہمارے لئے ہے۔ قرآن نے مندرجہ بالا آیات میں ان سب خیالات پر خط بطلان کھینچ دیاہے۔ قرآن پہلے پیغمبر سے یوں خطاب کرتاہے: ان سے کہیے کہ خدا کے بارے میں تم ہم سے گفتگو کرتے ہو حالانکہ وہ تمہارا اور ہمارا پروردگار ہے (قل اتحاجوننا فی اللہ دھو ربنا و ربکم
پروردگار کسی نسلی یا قبیلے کے لئے ہی نہیں وہ تو تما م جہانوں اور تمام عالم ہستی کا پروردگار ہے۔ یہ بھی جان لوکہ ہم اپنے اعمال کے جواب دہ ہیں اور تم اپنے اعمال کے جواب دہ ہو اور اعمال کے علاوہ کسی شخص کے لئے کوئی وجہ امتیاز نہیں ( و لنا اعمالنا و لکم اعمالکم)۔فرق یہ ہے کہ ہم خلوص سے اس کی پرستش کرتے ہیں اور خالص موحدہیں لیکن تم میں سے بہت سوں نے توحید کو شرک آلود کر رکھاہے ( و نحن لہ مخلصون
اس کے بعد کی آیت میں ان بے بنیاد دعووں میں سے کچھ کا جواب دیتے ہوئے فرماتاہے: کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اسباط سب یہودی یا عیسائی تھے (اٴَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالْاٴَسْبَاطَ کَانُوا ہُودًا اٴَوْ نَصَارَی)۔کہیے تم بہتر جانتے ہو یا (قل اعلم ام اللہ)خدا بہتر جانتاہے کہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی۔ تم بھی کم و بیش جانتے ہو کہ حضرت موسی اور حضرت عیسی سے بہت سے پیغمبر دنیا میں آئے اور اگر نہیں جانتے تو پھر بغیر اطلاع کے ان کی طرف ایسی نسبت دنیا تہمت، گناہ اور حقیقت سے پردہ پوشی ہے اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اپنے پاس موجود خدائی شہادت چھپائے (و من اظلم ممن کتم شھادة عندہ من اللہ)۔مگر یہ جان لو کہ خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے (وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
تعجب ہے کہ جب انسان ہٹ دھرمی اور تعصب کا شکار ہوجاتاہے تو پھر مسلمات تاریخ تک کا انکار کردیتاہے۔ مثلا یہودی اور عیسائی حضرت ابراہیم، حضرت اسحق اور حضرت یعقوب جیسے پیغمبروں تک کو حضرت موسی اور حضرت عیسی کا پیروکار شمار کرتے ہیں جب کہ وہ ان سے پہلے دنیا میں آئے اور یہاں سے چل بسے۔ وہ بھی واضح حقیقت و واقعیت کو چھپاتے ہیں جس کا تعلق لوگوں کی قسمت اور دین و آئین سے ہے۔ اس لئے قرآن انہیں ظالم ترین افراد قرار دیتاہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر حقائق کو چھپاتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ زیر بحث آیت میں ایسے لوگوں کے نظریات کا ایک اور جواب دیا گیاہے۔ فرمایا: فرض کرو یہ سب دعوے سچے ہیں تو بھی وہ ایسے لوگ تھے جو گزرگئے ہیں ان کا دفتر اعمال بند ہوچکاہے، ا ن کا زمانہ بیت چکاہے اور ان کے اعمال انہی سے تعلق رکھتے ہیں (قلت اللہ قد خلت نھٓما کسبت) اور تم اپنے اعمال کے جواب دہ ہو اور ان کے اعمال کی باز پرس تم سے نہ ہوگی ( و لکم ما کسبتم و لا تسئلون عما کانوا یعملون
مختصر یہ کہ ایک زندہ قوم کو چاہئیے کہ اپنے اعمال کا سہارا لے اور ان پر بھر و سہ کرے نہ کہ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں کی تاریخ کا سہارا لے۔ ایک انسان کو صرف اپنی فضیلت و منقبت پر بھر و سہ کرنا چاہیے کیونکہ باپ کی فضیلت سے اسے کیا حاصل چاہے وہ کتنا ہی صاحب فضل کیوں نہ ہو۔
۱۴۲۔سَیَقُولُ السُّفَہَاءُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا قُلْ لِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ
ترجمہ
۱۴۲۔ عنقریب کم عقل لوگ کہیں گے (مسلمانوں کو) ان ۔ کہ پہلے قبلہ سے کس چیز نے روگردان کیا۔ کہہ دو: مشرق و مغرب اللہ کے لئے ہے۔ وہ جسے چاہتاہے سیدھی راہ کی ہدایت کرناہے۔


 

۱ عرب جس مقام پر(صبغہ اللہ) کہتے ہیں اس سلسلے میں مفسرین نے کئی احتمالات بیان کئے ہیں جن میں سے تین واضح ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ فعل محذوف کا
مفعول مطلق ہے (طبغو صبغة اللہ) دوسرا یہ کہ ملت ابراہیم کی جگہ آیا ہو جو گذشتہ آیات میں گزرچکاہے۔ تیسرا یہ کہ فعل محذوف کا مفعول یہ ہو (اتبعوا صبغة اللہ)۔
۲ نور الثقلین، ج۱، ص۱۳۲۔
 

 حنیف کا مادہ ہے حنف (برو زن ہدف) قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma