امام کسے کہتے ہیں:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 کلمات سے کیا مراد ہے:  نبوت، رسالت اور امامت میں فرق:

زیر بحث آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم کو جو مقام امامت بخشا گیا وہ مقام نبوت و رسالت سے بالاتر تھا۔ اس کی توضیح کے لئے امامت کے مختلف معانی بیان کئے جاتے ہیں۔
۱۔ امامت کا معنی ہے صرف دنیا وی امور میں لوگوں کی قیادت و پیشوائی (جیسا کہ اہل سنت کہتے ہیں)۔
۲۔ امامت کا معنی ہے امور دین و دنیا میں پیشوائی (اہل سنت ہی میں بعض اس کے قائل ہیں)۔
۳۔ امامت کا معنی ہے دینی پروگراموں کا ثابت ہونا جس میں حدود احکام الہی کے اجراء کے لئے حکومت کا وسیع مفہوم شامل ہے اس طرح ظاہری اور باطنی پہلوؤں سے نفوس کی تربیت و پرورش بھی امامت کے مفہوم میں داخل ہے۔
تیسرے معنی کے لحاظ سے یہ مقام رسالت و نبوت سے بلند تر ہے کیونکہ نبوت و رسالت خداکی طرف سے خبر دینا، اس کا فرمان پہنچانا اور خوشخبری دینا اور تنبیہ کرنا ہے لیکن منصب امامت میں ان امور کے ساتھ ساتھ اجرائے احکام اور نفوس کی ظاہری و باطنی تربیت بھی شامل ہے (البتہ واضح ہے کہ بہت سے پیغمبر مقام امامت پر بھی فائز تھے)۔ در حقیقت مقام امامت دینی منصوبوں کو عملی شکل دینے کا نام ہے۔ یعنی ایصال الی المطلوب، مقصود تک پہنچنا، اجرائے قوانین الہی کے لحاظ سے اور تکوینی ہدایت کے اعتبار سے یعنی تاثیر باطنی اور نفوذ روحانی۔ یہ وہ شعاع نور ہے جو انسانی دلوں کو روشنی بخشتے ہے اور انہیں ہدایت کرتی ہے۔
اس لحاظ سے امام بالکل آفتاب کی طرح ہے جو اپنی شعاعوں سے سبزہ زاروں کی پرورش کرتاہے۔ قرآن مجید میں ہے:
ہُوَ الَّذِی یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلَائِکَتُہُ لِیُخْرِجَکُمْ مِنْ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا
وہی ہے جو رحمت بھیجتا ہے اور اس کے ملائکہ رحمت بھیجتے ہیں تا کہ تمہیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال لے جائے اور وہ مومنین پر مہربان ہے۔ (احزاب ۔۴۳)
اس آیت سے واضح ہوتاہے کہ خدا کی خاص رحمتیں اور فرشتوں کی غیبی امداد مومنین کی تاریکیوں سے نور کی طرف رہبری کرتی ہے۔
یہ بات امام پر صادق آئی ہے۔ امام اور مقام امامت کے حامل عظیم پیغمبر مستعد و آمادہ افراد کی تربیت کرتے ہیں اور انہیں جہالت و گمراہی سے نکال کر نور و ہدایت کی طرف لے جاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ زیر بحث آیت میں امامت کے مذکورہ تیسرے مفہوم ہی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ قرآن کی متعدد آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ امامت کے مفہوم میں ہدایت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ سورہ سجدہ کی آیت ۲۴ میں ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اٴَئِمَّةً یَہْدُونَ بِاٴَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُون (احزاب ۔۴۳)
اس آیت سے واضح ہوتاہے کہ خدا کی خاص رحمتیں اور فرشتوں کی غیبی امداد مومنین کی تاریکیوں سے نور کی طرف رہبری کرتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ زیر بحث آیت میں امامت کے مذکور تیسرے مفہوم ہی کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ قرآن کی متعدد آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ امامت کے مفہوم میں ہدایت بھی شامل ہے۔ جیسا کہ سورہ سجدہ کی آیت ۲۴ میں ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اٴَئِمَّةً یَہْدُونَ بِاٴَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یُوقِنُونَ
ہم نے انہیں امام بنایا تا کہ ہمارے فرمان کے مطابق ہدایت کریں۔ اس لئے کہ وہ صبر و استقامت رکھتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان و یقین رکھتے ہیں۔
یہ ہدایت ارائة الطریق۔ راستہ دکھانا۔ کے معنی والی نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم مرحلہ امامت سے پہلے مقام نبوت و رسالت اور ارائة الطریق کے مفہوم کی ہدایت کے منصب پر تو قطعا و یقینا فائز تھے۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ جو منصب امامت سخت آزمائشوں سے گزرنے اور یقین، شجاعت اور استقامت کے مراحل طے کرنے کے بعد حضرت ابراہیم کو عطاہو ا وہ بشارت، ابلاغ اور انذار کے معنی سے ماوراء مقام ہدایت حامل ہے۔ لہذا وہ ہدایت جو امامت کے مفہوم میں داخل ہے ایصال الی المطلوب، روح مذہب کو عملی شکل دینا اور نفوس آمادہ کی تربیت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں۔
امام صادق فرماتے ہیں:
ان اللہ اتخذ ابراہیم عبدا قبل ان یتخذہ نبیا و ان اللہ اتخذہ نبیا قبل ان یتخذہ رسولا و ان اللہ اتخذہ رسولا قبل ان یتخذہ خلیلا و ان اللہ اتخذہ خلیلا قبل ان یتخذہ اماما فلما جمع الاشیاء قال انی جاعلک للناس اماما فمن عظمھا فی عین ابراھیم قال و من ذریتی قال لا ینال عھدی الظلمین قال لا یکون السفیہ امام التقی۔
خداوند عالم نے بنی بنانے سے قبل ابراہیم کو عہد قرار دیا اور اللہ نے انہیں رسول بنانے سے پہلے نبی قرار دیا اور انہیں خلیل بنانے سے قبل اپنی رسالت کے لئے منتخب کیا اور اس سے پہلے کہ امام بناتا انہیں اپنا خلیل بنا یا جب یہ تمام مقامات و مناصب انہیں حاصل ہوچکے تو اللہ نے فرمایا میں تمہیں انسانوں کے لئے امام بناتا ہوں۔ حضرت ابراہیم کو یہ مقام عظیم دیا تو انہوں نے عرض کیا: خدایا میری اولاد سے بھی امام قرار دے۔ ارشاد ہوا: میرا عہد ظالموں تک نہ پہنچے گا۔ بے وقوف شخص متقی لوگوں کا امام نہیں ہوسکتا(۱ )


 

۱ ۔ اصول کافی، ج۱، باب طبقات الانبیاء و الرسل ص ۱۳۳
 

 

 کلمات سے کیا مراد ہے:  نبوت، رسالت اور امامت میں فرق:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma