اسلام طلاق کے بارے میں وضع کردہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
محلل کا عمل ایک اور زنجیر ٹوٹ گئی

گذشتہ آیات کے بعد اس آیت میں اسلام طلاق کے بارے میں وضع کردہ حد بندیوں کو بیان کرتاہے تا کہ حقوق اور عورت کے احترام سے چشم پوشی نہ کی جاسکے۔
آیت کہتی ہے کہ جب تک عدت کی مدت ختم نہ ہوا اگرچہ اس کا آخری دن باقی ہو مرد کو اجازت ہے کہ وہ اپنی بیوی سے صلح کرلے اور دونوں خلوص و محبت سے زندگی بسر کرنے لگیں” فَاٴَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ“اگر حالات نامساعد ہیں تو اسے چھوڑدے”اٴَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوف“لیکن توجہ رہے کہ رجوع یا علیحدگی ہر صورت میں احسان اور نیکی ملحوظ رہے اور جذبہ انتقام سے یہ کام انجام نہیں پاناچاہئیے۔
” وَلاَتُمْسِکُوہُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ“
یہ جملہ ”معروف“ کی تفسیر ہے، یعنی رجوع صدق و صفا اور خلوص و محبت کی بناپر ہو۔ چونکہ زمانہ جاہلیت میں طلاق اور رجوع کو انتقام لینے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ لہذا آیت قطعی لہجے میں کہتی ہے کہ عورت کو آزار و تعدی کے مقصد سے زوجیت کی قید میں نہ رکھاجائے کیونکہ ایسا کرنا اسی پر نہیں بلکہ خود تمہارے نفس پر بھی ظلم ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ بیوی پر ظلم کرنا کس طرح اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے، اس کی وجوہ یہ ہوسکتی ہیں۔
۱۔ حق کشی کی بنیاد پر کئے جانے والے رجوع میں کوئی سکون و آرام میسر نہیں آسکتا۔
۲۔ قرآن کی نگاہ میں مرد اور عورت نظام خلقت میں ایک پیکر کے دو جزء ہیں اس بناء پر عورت پر ظلم کرنا اپنے ہی حقوق پامال کرنے کے مترادف ہے۔
۳۔ جو شخص کسی پر ظلم کرتاہے در اصل وہ خدا کے عذاب کی طرف بڑھ رہاہوتاہے اور حقیقت میں اس طرح وہ اپنے اوپر ہی ظلم کررہاہوتاہے۔
خدا کے قوانین کا مذاق نہ اڑاؤ
”وَلاَتَتَّخِذُوا آیَاتِ اللهِ ہُزُوًا وَاذْکُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْکُمْ وَمَا اٴَنزَلَ عَلَیْکُمْ مِنْ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُمْ بِہِ“
”ہزو“ اور ”ہزوء“ کا معنی تمسخر کرنا ہے۔
عموما ہزاروں لوگ شرعی احکام کی خلاف ور زیاں کرتے ہوئے وجدانی دباؤ سے بچنے کے لیئے اور (اپنے خیال میں ) عذاب الہی سے فرار کے لیئے شرعی حیلے بہانے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آیات و احکام کے ظواہر کو اپنے لیئے دستاویز بنالیتے ہیں ۔ اس روش کو قرآن آیات قرآن اور احکام الہی سے استہزاء اور تمسخر قرار دیتاہے یہ بات باعث افسوس ہے کہ بہت سے احکام کے بارے میں ایسا انحراف عموما نظر سے گزرتا رہتاہے۔ طلاق کے معاملے میں بھی اس کی مثال ملتی ہے۔ جیسا کہ بیان کیا جاچکاہے مرد کے لیے حق رجوع ازدواج اور شادی کو زیادہ سے زیادہ پائدار بنانے کے لیئے ہے لیکن بعض لوگ اس مقصد کے برعکس اقدام کرتے ہیں یعنی رجوع حق کی اجازت کو عورت سے انتقام لینے اور اسے آزار پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح قانون پر عمل کرنے کے پردے میں اپنے حقیقی ظالمانہ چہرے کو چھپاتے ہیں اسی کو قرآن اور قانون کا تمسخر اڑانا کہتے ہیں۔ محل بحث آیت کہتی ہے: آیات خدا کو کھلونا نہ بناؤ اور خدا کی عظیم نعمت دین اور آسمانی کتاب کو یاد رکھو جو تمہاری سعادت کے لیے آئے ہیں۔
دین اور اس کے تمام قوانین و احکام کا سرچشمہ جہان ثابت کا نظام ہے جسے نوع انسانی کے حقیقی مصالح کی روشنی میں بنایاگیاہے اس لیے مصالح سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے بعض احکام کے ظاہری طریقوں کو اپنا کر بے روح سانچے نہ بناؤ۔
کہیں یہ طرز عمل خود تمہارے فوائد کو بھی خطرے میں ڈال دے گا اور آیات خدا کے سامنے منہ ٹیڑھا کرنے کا جرم بھی شمار نہ کرلیاجائے۔
”وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ “
آیت کے آخر میں عورت کے حقوق کی حفاظت کے لیے احکام الہی سے غلط فائدہ اٹھانے والوں کی گرفت کی گئی ہے اور ایسے لوگوں سے کہاگیاہے کہ خدا سے ڈرو اور جان لوکہ وہ تمہارے کاموں اور اس جہان کے تمام اسرار سے آگاہ ہے،
۲۳۲۔وَإِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ اٴَجَلَہُنَّ فَلاَتَعْضُلُوہُنَّ اٴَنْ یَنکِحْنَ اٴَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِکَ یُوعَظُ بِہِ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکُمْ اٴَزْکَی لَکُمْ وَاٴَطْہَرُ وَاللهُ یَعْلَمُ وَاٴَنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ
ترجمہ
۲۳۲۔ اور جب عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت تمام ہوجائے تو اگر پسندیدہ طریقے اور باہمی رضا مندی سے وہ اپنے (پہلے) شوہروں سے شادی کرنا چاہیں تو انہیں اس سے نہ روکو۔ اس حکم سے تم سے بس وہ لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں ! اور اس پر عمل کرتے ہیں) جو خدا اور روز جزا پر ایمان رکھتے ہیں یہ (احکام) تمہارے (خانوادوں کے) نشو و نما کے لیئے زیادہ موثر ارو آلودگیوں کو دھونے کے لیے زیادہ مفید ہیں اور خدا جانتا ہے (لیکن ) تم نہیں جانتے۔
شان نزول
معقل بن یسار پیغمبر اکرم کا ایک صحابی تھا۔ اس کی ایک بہن جملاء تھی۔ عاصم بن عدی اس کی بہن کا پہلا شوہر تھا۔ وہ عاصم سے اپنی بہن کی دوبارہ شادی کی مخالفت کرتاتھا کیونکہ عاصم نے قبل ازیں اسے طلاق دے دی تھی۔
اس بناء پر آیت نازل ہوئی جس میں اس قسم کی مخالفت سے منع کیاگیاہے۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ جابر بن عبداللہ نے اپنی چچازادکی پہلے شوہر سے دوبارہ شادی کی مخالفت کی تھی شاید زمانہ جاہلیت میں اکثر اوقات قریبی رشتہ داروں کو یہ حق دیا جاتاتھا۔
(اس میں شک نہیں کہ ہماری فقہ میں بھائی اور چچازادکی بیٹی پر ایسا حق نہیں رکھتے لیکن مندرجہ بالا آیت جیسا کہ ذکر آئے گا ایک کلی مفہوم کی حامل ہے اور اس کے مطابق ولی یا غیر ولی کوئی شخص بھی یعنی باپ ماں چچازاد بھائی اور دوسرے لوگوں میں سے کوئی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ ایسی شادی کی مخالفت کرے)۔

 

محلل کا عمل ایک اور زنجیر ٹوٹ گئی
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma