قرآن ا س آیت میں ایک اور عظیم نعمت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے اللہ نے قوم بنی اسرائل کو نوازاتھا وہ ہے ستمگاروں کے چنگل سے آزادی جو خداکی عظیم نعمتوں میں ہے ۔
انہیں یاد لاتاہے :وہ زمانہ یاد کرو جب تمہیں ہم نے فرعونیوں سے آزادی دلائی تھی (واذنجیناکم من اٰل فرعون ) جو ہمیشہ شدید ترین طریقہ سے تمہیں آزار دیتے تھے ( یسومونکم سوء العذاب )۔
تمہارے بیٹوں کا گلا کاٹ دیتے تھے ا ور تمہاری عورتوں کو کنیزی اور خدمت کے لئے زندہ رکھتے تھے (یذبحو ن ابنائکم ویستحیون نسائکم)اور یہ صور ت حال تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری آزمائش تھی (وفی ذٰلکم بلاء من ربکم عظیم)۔قرآن نے خصوصیت سے بنی اسرئیل پر فرعونیوں کے ظلم کی تصویر کشی کر تے ہوئے ”یسومونکم “کالفظ استعمال کیا ہے ،
یسومون فعل مضارع ہے اور مادہ سوم سے ہے جس کا اصلی مقصد کسی چیز کے پیچھے جانا ہے
ہم جانتے ہیں فعل مضارع عموما دوام اوراسمرارہی کے معنی دیتا ہے ۔اس گوسفند اور اونٹ کو ”سائمہ “کہتے ہیں جو ہمیشہ جنگل میں چرتے ہیں اور مالک کے گھر سے کبھی گھاس نہیں کھاتے ۔
یہا ں سے ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل مسلسل فرعونیوں کے شکنجے میں مبتلا تھے وہ اپنی آنکھ سے دیکھتے کہ ان کے بے گناہ بیٹیو ں کو قتل کیا جارہا ہے ۔اس سے بھی بڑھ کر وہ خود ہمشہ ان کے ظلم میںگرفتا ر رہتے ۔وہ قبتیوں کے غلام ،خدمت گار ،خادم اور ساز ساما ن کا حصہ شمار ہوتے تھے ۔
یہ بات اہم ہے کہ قرآ ن اس کار روائی کو بنی اسرائیل کے لئے ایک سخت اور عظیم آزمائش قرار دیا ہے (بلاء کا ایک معنی آزمائش اور امتحان ہے )اور یہ حقیقت ہے کہ ان نامناسب اورخلاف فطرت امور کو برداشت کرناایک سخت آزمائش تھی
یہ احتما ل بھی ہے لفظ ”بلاء “یہاں مجازات اور سزا کے معنی میں ہو کیو نکہ بنی اسرائیل اس سے پہلے بہت قدرت ونعمت کے حامل تھے اور انہوں نے کفران نعمت کیا لہٰذا خدا نے انہیں سزادی ۔
بعض مفسرین کی طرف سے ایک تیسر ااحتمال بھی ذکرہو ا ہے ۔وہ یہ کہ ”بلا“نعمت کے معنی میں ہے یعنی فرعو نیوں کے چنگل سے نجات تمہارے لئے ایک بہت بڑی نعمت تھی ۔ ۱
بہر حال فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کی آزادی کا دن ایک اہم تاریخی دن تھا جس کا قرآن نے بارہا تذکرہ کیا ہے ۲