فتنہ کا قرانی مفہوم

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
مدینه میں جهاد کا حکم کیوں خرچ کرنا معاشرے کو هلاکت سے بچاتا هے

لفظ فتنہ اور اس کے مشتقات قرآن میں مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
۱۔ آزمائش و امتحان ۔۔۔۔۔جیسے یہ آیت ہے
احسب الناس ان یترکوآ ان یقولوا امنا و ہم لا یفتنون عنکبوت آیہ ۲
کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ ایمان لی آئے ہیں اور ان کا امتحان اور آزمائش نہیں ہوگی؟
۲۔ فریب دہی ۔۔۔۔۔ارشاد الہی ہے:
یا بنی آدم لا یفتننکم الشیطان اعراف : آیت۲۷
ای اولاد آدم شیطان تمہیں مکر و فریب نہ د ے
۳۔ بلاء اور عذاب ۔۔۔۔۔فرمان الہی ہے:
و اتقوا فتنة لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة انفال آیت ۲۵
اس عذاب سے ڈرو جو فقط ظالموں ہی کے لیے نہیں ( بلکہ ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے خود تو ظلم نہیں کیا لیکن ظلم ہوتا رہااور وہ چب سادھے(رہے)
۴۔ شرک، بت پرستی اور مومنین کی راہ میں رکاوٹ بننا ۔۔۔۔۔۔ارشاد ہوتا ہے:
وا قاتلو ہم حتی لا تکون فتنہ و یکون الدین کلہ للہ انفال آیت۳۹
اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ شرک اور بت پرستی بافی نہ رہے اور دین صرف اللہ سے مخصوص ہو جا ئے
۵۔ گمراہ کرنا اور گمراہی ۔۔۔۔۔سورہ مائدہ میں ہے:
و من یرد اللہ فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا مائدہ آیت ۴۱
اور جسے خدا گمراہ کرد ے ( اور اس سے توفیق سب کرلے تو تم اس کے مقابلے میں کوئی قدرت نہیں رکھتے
بعید نہیں کہ ان تمام معانی کی ایک ہی بنیاد ہو( جیسے مشترک الفاظ کی یہی صورت ہوتی ہے) اور وہ بنیاد یہ ہے کہ فتنہ کا اصل لغوی معنی ہے کہ سو نے اور چاندی کو آگ کے دباؤ کے نیچے رکھنا تا کہ خالص اور ناخالص حصہ جدا ہو جائے۔ اس لیے جہاں کہیں دباؤ اور سختی ہو یہ لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ مثلا امتحان کے مواقع پر شدت اور مشکل در پیش ہو تی ہے جو انسان کے امتحان کا باعث بنتی ہے۔ یہی حال کفر اور مخلوق کی ہدایت کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک میں ایک قسم کاد باؤ اور شدت پائی جاتی ہے۔
۱۹۴۔
الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنْ اعْتَدَی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ
ترجمہ
۱۹۴۔حرام مہینہ حرام مہینے کے مقابلے میں ( اگر دشمن اس کا احترام نہ کریں اور تم سے لڑیں تو تم بھی مقابلہ بالمثل کا حق رکھتے ہو ) تمام حرام امور (قابل ) قصاص ہیں اور (بطور کلی) جو شخص بھی تم پر تجاوز کرے تو اس کی طرح تم بھی اس پر تعدی کر سکتے ہوا اور خدا سے ڈرتے رہنا (اور زیادتی نہ کرنا ) اور جان لو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے ۔
تفسیر :
مشرکین جانتے تھے اور پیغمبر اکرم سے سن بھی چکے تھے کہ حرمت والے مہینوں( ذی القعدہ ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں اسلام کے نقط نظر سے جنگ کرنا نا جائز اور خصوصیت سے مسجد الحرام اور مکہ میں تو اور بھی زیادہ غیر درست ہے نیز پیغمبر اسلام اس حکم کا احترام کر تے ہیں اس لیے ان کی خواہش تھی کہ مسلمانوں پر انہی مہینوں میں غفلت کی حالت میں حملہ کردیں اور وہ خود ان محترم مہینوں کے احترام سے بے پرواہ تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو اس کی اجازت نہیں کہ وہ مقابلہ کریں اور یوں ،ہی رہا تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے
زیر بحث آیت نے ان کی سازش سے پردہ اٹھا دیا اور کہا کہ حرام مہینوںمیں جنگ کا جواب انہی مہینوںمیں دیا جا ئیگا حرام مہینوںمیں مسلمانوں کی طرف سے مقابلہ در حقیقت ان مہینوںکا احترام لوٹا نے کے لیے ہی ہے۔
و المحرمات قصاص واقع میں ان لوگوں کا دندان شکن جواب ہے جو حرام مہینوں میں جنگ کی اجازت دینے پر پیغمبر اکرم ﷺ پر اعتراض کر تے تھے یعنی نگاہ اسلام میں ماہ حرام کا احترام ان لوگوں کے مقابلے میں ہے جواسے محترم سمجھے لیکن جو اس کے احترام کو پامال کریں ان سے رعایت ضروری نہیں اور ان سے اس ماہ میں بھی جنگ کرنا جائز ہے ۔ اسی لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جنگ کی صورت واضح ہو جائے تو مقابلے کے لیے کھڑ ے ہو جاؤتا کہ مشرکین دوبارہ حرام مہینوں کا احترام زائل کر نے کی جرات نہ کر سکیں ۔
اس کے بعد ایک کلی اور عمومی حکم صادرفرمایا گیا ہے ۔ وہ یہ کہ مقابلہ بمثل ہر مسلمان شخص کا فریضہ ہے ۔ تمام لوگوں کو اجازت دی گئی ہے کہ ظالم کے مقابلے میں کھڑ ے ہو جائیں اورجس قدر ظلم و تجاوزان پر کیا گیا ہے اتناہی اس کا جواب دیں۔
یہ کام فطرت و آفرینش کے قوانین کے مطابق ہے ۔ یہاں تک کہ بدن کے خلیے حملہ کر نے وا لے جرا ثیموں کے مقابلے میں کھڑ ے ہو جا تے ہیں اور مملکت بدن پران کے تجاوز اور حملے کا دفاع کر تے ہیں ۔ نباتات بھی اسی طبیعی اور تکوینی قانون سے استفادہ کر تے ہیں۔ وہ حوادث ، طوفان اور مختلف حملہ آوروں کے مقابلے میں استقامت دکھا تے ہیں او ان حملوں کا مقابلہ کرتے ہیں
مسیحیت کہتی ہے: اگر کوئی تمہارے دائیں رخسار پرتھپٹر مار ے تو بایاں رخسار بھی اس کے سامنے کردو اور اسے دو سرے تھپڑ کے لیے تیار کرو۔
اس کے بر عکس اسلام کہتا ہے : حس قدر تم پر ظلم و تعدی ہواس کا جواب اس طرح دو اور تسلیم کا معنی موت اور مقابلے کا معنی زندگی ہے۔ یہ ہے اسلام کی منطق (البتہ یہ امر دو ستوں کو معاف کرنے کے منافی نہیں اور یہ ایک الگ بحث ہے)
۱۹۵
۔و اتقوا اللہ و اعملوا ان اللہ مع المتقین اس جملہ میں دوبارہ تاکید کی گئی ہے کہ جواب اور دفاع تجاوز کی مقدار سے زیادہ نہ ہو کیونکہ جواب دینے میں زیادتی حریم تقوی و پرہیزگاری سے بعید ہے
ترجمہ
۱۹۵۔
وَاٴَنفِقُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَلاَتُلْقُوا بِاٴَیْدِیکُمْ إِلَی التَّہْلُکَةِ وَاٴَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ
۱۹۵۔ اور راہ خدا میں خرچ کرو (اور خرچ نہ کرکے ) اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی کرو کہ اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتاہے۔
تفسیر
جس طرح جہاد میں مخلص ، طاقتور اور تجربہ کار مردوں کی ضرورت ہے اسی طرح مال و دولت کی بھی احتیاج ہے کیونکہ جہاد میں روحانی و جسمانی آمادگی کی ضرورت ہے اور فوج کے لیے مناسب اسلحہ اور سامان جنگ کی بھی احتیاج ہے۔
یہ صحیح ہے کہ پہلے درجے کا عامل سرنوشت اور انجام جنگ کا تعین مجاہدوں اور جانبازوں ہی سے ہو تا ہے ۔ لیکن مجاہد کو وسائل کی بھی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت تاکید کر رہی ہے کہ اس راہ میں خرچ نہ کرنا گویا اپنے تیئں ہلاکت وتباہی میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
خصوصا اس زمانے میں تو بہت سے مسلمان جذ بے اور عشق جہاد سے سرشار تھے لیکن فقیر و محتاج تھے اور اسباب جنگ مہیا کر نے کی سکت نہ رکھتے تھے جیسا کہ قرآن نقل کرتا ہے کہ وہ لوگ پیغمبر اکرم کی خدمت میں آ تے اور آپ سے درخواست کرتے تھے کہ ہماے لیے سامان جنگ مہیا فرمائیں اور ہمیں میدان جنگ بھجیں چونکہ اسباب مہیا نہ تھے لہذا وہ افسردہ اور غمگین روتی ہوئی آنکھوں سے پلٹ آتے:
تولوا و اعینہم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون
آنکھوں میں اشک رواں لیے ہو ئے لوٹ جاتے اورغم زدہ ہو تے کہ ان کے پاس مال کیوں نہیں جس سے وہ اسباب جنگ مہیا کریں اور میدان جنگ میں حاضر ہوں۔ (توبہ ۔۹۲)

 

 

 

 

مدینه میں جهاد کا حکم کیوں خرچ کرنا معاشرے کو هلاکت سے بچاتا هے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma