قصاص تمہاری حیات کا سبب ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
تمام نیکیوں کی اساس  قصاص عفو ایک عادلانہ نظام ہے:

ان آیات سے لے کر آگے کی کچھ آیات تک احکام اسلام کے ایک سلسلے کو واضح کیاگیاہے ۔ گذشتہ آیات نیکی کے بارے میں تھیں اور ان میں کچھ اسلامی پروگراموں کی وضاحت بھی کی گئی تھی۔ زیر نظر آیات اس سلسلہ بیان کی تکمیل کرتی ہیں۔
 سب سے پہلے احترام خون کی حفاظت کا مسئلہ بیان کیاگیاہے جو ربط معاشرہ کے ضمن میں بہت اہمیت رکھتاہے۔
 اسلام کا یہ حکم جاہلیت کے رسم و رواج پر خط بطلان کھینچتاہے۔ مومنین کو مخاطب کرکے فرمایاگیاہے: اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم تمہارے لئیے لکھ دیاگیاہے (یا ایہا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی
 قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی لازم الاجراء قوانین کو ”کتب علیکم“ (تم پر لکھ دیا گیاہے) کے الفاظ سے بیان کرتاہے۔ مندرجہ بالا آیت بھی انہی میں سے ہے۔ آئندہ کی آیات جو وصیت اور روزہ کے بارے میں ہیں، میں بھی یہی تعبیر نظر آتی ہے۔ بہرحال یہ الفاظ اہمیت اور تاکید مطلب کو پورے طور پر اداکرتے ہیں کیونکہ ہمیشہ ان الفاظ کو رقم کیا جاتاہے جو نگاہ قدر و قیمت میں قطعیت رکھتے ہوں۔
 قصاس مادہ قص (برو زن سد) سے ہے۔ اس کا معنی ہے جستجو اور کسی چیز کے آثار کی تلاش کرنا اور جو چیز پے در پے اور یکے بعد دیگرے آئے اسے قصہ کہتے ہیں چونکہ قصاص ایسا قتل ہے جو پہلے قتل کے بعد قرار پاتاہے اس لئے یہاں یہ لفظ استعمال کیاگیاہے۔
 جیسا کہ شان نزول میں اشارہ ہوچکاہے یہ احکام افراط و تفریط کے ان رویوں کے اعتدال پر لانے کے لئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں کسی قتل کے بعد رونما ہوتے تھے۔ لفظ قصاص اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ اولیاء مقتول حق رکھتے ہیں کہ وہ قاتل سے وہی سلوک کریں جس کا وہ ارتکاب کرچکاہے لیکن آیت یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ آیت کا آخری حصہ مساوات کے مسئلہ کو زیادہ واضح کرتاہے۔ ارشاد ہوتاہے: آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت (الحر و العبد بالعبد و الانثی بالانثی
 بعد میں ہم واضح کریں گے کہ یہ مسئلہ مرد کے خون کی عورت کے خون پر برتری کی دلیل نہیں ہے بلکہ قاتل مردے بھی (خاص شرائط کے ساتھ) مقتول عورت کے بدلے قصاص لیاجاسکتاہے۔
 اس کے بعد یہ واضح کرنے کے لئے کہ قصاص اولیاء مقتول کا ایک حق ہے مگر یہ کوئی الزامی حکم نہیں ہے بلکہ اگر اولیاء مائل ہوں تو قاتل کو بخش سکتے ہیں اور خون بہالے سکتے ہیں یا چاہیں تو خون بہا بھی نہ لیں ۔ مزید فرمایا کہ اگر کوئی اپنے دینی بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور قصاص کا حکم طرفین کی رضا سے خون بہامیں بدل جائے) تو اسے چاہئیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور اس خون بہاکے لینے میں دوسرے پر سختی و تنگی روانہ رکھے) اور ادا کرنے دالا بھی دیت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے (فمن عفی لہ من اخیہ شیئ فاتباع بالمعروف و اداء الیہ باحسان)۔
 ایک طرف اولیاء مقتول کو وصیت کی گئی ہے کہ اب اگر اپنے بھائی سے قصاص لینے سے صرف نظر کرچکے ہو تو خونبہا لینے میں زیادتی سے کام نہ لو شائستہ اور اچھے طریقے سے اور عدل کو پیش نظر رکھتے ہوئے جسے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے ایسی اقساط میں جن میں وہ ادائیگی کی قدرت رکھتاہے وصول کرو۔
 دوسری طرف ”اداء الیہ باحسان“ کے جملے میں قاتل کو بھی وصیت کی گئی ہے کہ وہ خونبہا کی ادائیگی میں نیکی اور اچھائی کی روش اختیار کرے اور بغیر کسی غفلت کے کامل اور بر محل ادا کرے۔ اس طرح دونوں کے لئے ذمہ داری اور راستے کا تعین کردیاگیاہے۔
 آیت کے آخر میں بطور تاکید اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس کسی کی طرف سے حدسے تجاوز کیاجائے گا وہ شدید سزا کا مستحق ہوگا۔ فرمایا: تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اور اس کے بعد بھی جو شخص حدسے تجاوز کرے، تو دردناک عذاب اس کے انتظار میں ہے (ذالک تخفف من ربکم و رحمة ”فمن اعتدی بعد ذالک فلہ عذاب الیم
 انسانی اور منطقی نقطہ نظر سے قصاص اور عفو کا یہ ایک عادلانہ دستور ہے۔ ایک طرف اس حکم سے زمانہ جاہلیت کی فاسد روش کو غلط قرار دیاگیاہے۔ اس دور میں لوگ قصاص کے لحاظ سے کسی قسم کی برابری کے قائل نہ تھے اور ہمارے زمانے کے جلادوں کی طرح ایک شخص کے بدلے سینکڑوں افراد کو خاک و خون میں لوٹا دیتے تھے۔ دوسری طرف لوگوں کے لئے عفو و بخشش کا راستہ کھول دیاہے۔ اس حکم میں احترام خون میں کمی نہیں آنے دی گئی اور قاتلوں میں جسارت و بے باکی پیدا نہیں ہونے دی گئی اور اس آیت کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ کہ معاف کرنے اور خون بہا لینے کے بعد طرفین میں سے کوئی بھی تجاوز کا حق نہیں رکھتا جب کہ زمانہ جاہلیت میں اولیاء مقتول معاف کردینے اور خونبہا لینے کے با وجود بعض اوقات قاتل کو قتل کردیتے تھے
 بعد کی آیت مختصر اور پر معنی عبارت سے مسئلہ قصاص سے متعلق بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: اے صاحبان عقل و خرد ! قصاص تمہارے لئے حیات بخش ہے ، ہوسکتا ہے تم تقوی و پرہیزگاری اختیار کرلو (و لکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب لعلکم تتقون
 دس الفاظ پر مشتمل یہ آیت انتہائی فصیح و بلیغ ہے یہ ایک شعار اسلامی کی صورت میں ذہنوں پر نقش ہوجاتی ہے ۔ یہ بڑی عمدگی سے نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی قصاص میں کسی قسم کا انتقامی پہلو نہیں بلکہ یہ حیات و زندگی کی طرف کھلنے والا ایک دریچہ ہے۔
 ایک طرف تو یہ معاشرے کی حیات ہے کیونکہ اگر قصاص کا حکم کسی طور پر بھی موجود نہ ہوتا اور سنگدل لوگ بے پرواہ ہوتے تو بے گناہ لوگوں کی جان خطرے میں رہتی۔ جن ملکوں میں قصاص کا حکم ختم کردیا گیاہے وہاں قتل کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہوگیاہے۔ دوسری طرف یہ حکم قاتل کی زندگی کا سبب ہے کیونکہ قصاص کا تصور اسے قتل انسانی کے ارادے سے کافی حد تک بازرکھے گا اور اسے کنٹرول کرے گا۔ تیسری طرف برابری کا لزوم پے در پے کئی افراد کے قتل کو روکے گا۔ اور زمانہ جاہلیت کے ان طور طریقوں کو ختم کردے گا جن میں ایک قتل کے بدلے کئی افراد کو قتل کردیا جاتاتھا اور پھر اس کے نتیجے میں آگے بہت سے افراد قتل ہوتے تھے اور اس طرح سے یہ حکم معاشرے کی زندگی کا سبب ہے۔
 اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ قصاص کا مطلب ہے معاف نہ کرنا۔ یہ خود ایک دریچہ حیات کھلنے کے مترادف ہے نیز لعلکم تتقون ہر قسم کے تجاوز و تعدی سے پرہیز کرنے کے کئے تنبیہ ہے جس سے اسلام کے اس حکیمانہ حکم کی تکمیل ہوتی ہے۔

تمام نیکیوں کی اساس  قصاص عفو ایک عادلانہ نظام ہے:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma