کوئی چیز کیسے عدم سے وجود میں آتی ہے:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 کن فیکون کی تفسیر: خدا ہمارے ساتھ باتیں کیوں نہیں کرتا

لفظ (بدیع) کا مادہ ہے (بدع) جس کا معنی ہے بغیر کسی سابقہ کے کسی چیز کا وجود میں آنا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آسمانوں اور زمین کو خدانے بغیر کسی مادے اور بغیر کسی پہلو نمونے کے وجود بخشاہے۔
 اب یہ سوال ہوگا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے جب کہ عدم وجود کی ضروت مندہے۔ لہذا یہ کیسے علت اور منشاء وجود ہوسکتاہے۔ کیا واقعا یہ باور کیاجاسکتاہے کہ نیستی سبب ہستی ہو۔ مسئلہ ابداع پر ماد یین کا یہ پرانا اعتراض ہے۔
 اس کا جواب پیش خدمت ہے:
 پہلے مرحلے میں تو یہ اعترا ض خود مادہ پرستوں پر بھی وارد ہوتاہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ جہان قدیم اور ازلی ہے اور کوئی چیز بھی آج تک اس میں سے کم نہیں ہوئی اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی تغیرات آئے ہیں جن سے مادے کی یہ صورت بدلی ہے جو ہمیشہ بدلتی رہتی۔ گویا صورت بدلتی ہے نہ کہ مادہ۔
 اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ مادے کی جو موجودہ صورت ہے یقینا وہ پہلے تو نہ تھی۔ اب یہ صورت کیسے وجود میں آئی کیا عدم سے وجود میں آئی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر عدم کیسے وجود صورت کا منشاء ہوسکتاہے۔
 مثلا ایک نقاش قلم اور سیاہی سے کاغذ پر ایک بہترین منظر بناتا ہے۔ مادہ پرست کہتے ہیں کہ اس کا جوہر اور سیاہی تو پہلے سے موجود تھی۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ منظر (صورت) جو پہلے موجود نہ تھا کس طرح وجود میں آیا۔ جو جواب وہ صورت کے عدم سے پیدا ہوجانے کے متعلق دیں گے وہی جواب ہم مادہ کے سلسلے میں دیں گے
 دوسرے مرحلہ میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ لفظ (سے) کی وجہ سے اشتباہ ہواہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا مطلب ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میز لکڑی سے بنائی گئی ہے۔ جس میں میز بنانے کے لئے لکڑی کا پہلے موجود ہونا ضروری ہے تا کہ میز بن سکے جب کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا معنی یوں نہیں بلکہ اس کا معنی ہے کہ عالم پہلے موجود نہ تھا بعد میں وجود پذیر ہوا۔
 فلسفے کی زباں میں یوں کہنا چاہئیے کہ ہر موجود ممکن (جو اپنی ذات سے وجود نہ رکھتا ہو) کو اپنی تشکیل کے لئے دو پہلو درکارہیں (ماہیت) اور ( وجود)۔
 (ماہیت )ایک اعتباری معنی ہے کہ جس کی نسبت وجود و عدم کے ساتھ مساوی ہے۔ یہ الفاظ دیگر وہ قدر مشترک جو کسی چیز کے وجود اور عدم کو دیکھنے سے دستیاب ہو اس کا نام ماہیت ہے۔ مثلا یہ درخت پہلے نہیں تھا۔ اب وجود رکھتاہے۔ جو چیز وجود و عدم سے ثابت ہو وہ ماہیت ہے لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عالم کو عدم سے وجود میں لایاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عالم حالت عدم کے بعد حالت وجود میں آگیاہے دوسرے لفظوں میں ماہیت کو حالت عدم سے حالت وجود میں لایاگیاہے۔۱
 ۱ ۔ مزید وضاحت کے لئے کتاب آفریدگار جہان کی طرف رجوع کریں۔
 ۱۱۸۔ وَقَالَ الَّذِینَ لاَیَعْلَمُونَ لَوْلاَیُکَلِّمُنَا اللهُ اٴَوْ تَاٴْتِینَا آیَةٌ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِثْلَ قَوْلِہِمْ تَشَابَہَتْ قُلُوبُہُمْ قَدْ بَیَّنَّا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ
 ۱۱۹۔إِنَّا اٴَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَلاَتُسْاٴَلُ عَنْ اٴَصْحَابِ الْجَحِیم
 ترجمہ
 ۱۱۸۔ بے علم افراد کہتے ہیں خدا ہم سے بات کیوں نہیں کرتا اور کوئی آیت و نشانی خود ہم پر کیوں نہیں نازل کرتا۔ ان سے پہلے بھی لوگ ایسی باتیں کرتے تھے۔ ان کے دل اور افکار ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ لیکن ہم (کافی تعداد میں اپنی) آیات اور نشانیاں (حقیقت کے متلاشی) اہل یقین کے لئے روشن اور واضح کرچکے ہیں۔
 ۱۱۹۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ (اہل دنیا کو اچھائیوں اور برائیوں کے مقابلے میں) بشارت اور تہدید کے لئے بھیجا اور (اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد) تو اہل جہنم کی گمراہی پر جواب دہ نہیں ہے۔

 کن فیکون کی تفسیر: خدا ہمارے ساتھ باتیں کیوں نہیں کرتا
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma