دعا کی قبولیت کی شرائط:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 دعا کا حقیقی مفہوم: نتیجه

دعا کی قبولیت کی شرائط کی طرف توجہ کرنے سے بھی بظاہر دعا کے پیچیدہ مسئلے کے سلسلے میں نئے حقائق آشکار ہوتے ہیں اور اس کے اصلاحی اثرات واضح ہوتے ہیں ۔ اس ضمن میں چند احادیث پیش خدمت ہیں:
۱: دعا کی قبولیت کے لئے ہر چیز سے پہلے دل اور روح کی پاکیزگی کی کوشش ، گناہ سے توبہ اور اصلاح نفس ضروری ہے ۔ اس سلسلے میں خدا کے بھیجے ہوئے رہنما ؤں اور رہبر وں کی زندگی سے الہام و ہدایات حاصل کرنا چاہیں امام صادق سے منقول ہے ، آپ نے فرمایا:
ایاکم ان یسئل احدکم ربہ شیئا من حوائج الدنیا و الاخرة حتی یبدء بالثناء علی اللہ و المدحة و الصلوة علی النبی و الہ ثم الاعتراف بالذنب ثم المسالة۔
جب تم میں سے کوئی اپنے رب سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب کرنا چاہے تو پہلے خدا کی حمد و ثنا اور مدح کرے ، پیغمبر اور ان کی آل پردرو د بھیجے پھر گناہوں کا اعتراف اور اس کے بعد سوال کرے۔۱
۲: اپنی زندگی کی پاکیزگی کے لئے غصبی مال اور ظلم و ستم سے بچنے کی کوشش کرے اور حرام غذا نہ کھائے ۔ پیغمبر اکرم سے منقول ہے :
من احب ان یستجاب دعائہ فلیطلب مطعمہ و مکسبہ
جو چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اس کے لیے ضروری ہے اس کی غذا و ر کسب و کار پاک و پاکیزہ ہو۔۲
لتامرون بالمروف و ولتنہن عن المنکر ا و یسلطن اللہ شرار کم علی خیارکم و یدعو اخیارکم فلا یستجاب لہم۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضرور کرو ورنہ خدا تم سے بروں کو تمہارے اچھے لوگوں پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے تو وہ ان کی دعا قبول نہیں کرے گا ۔۳
حقیقت میں یہ عظیم ذمہ داری جو ملت کی نگہبانی ہے اسے ترک کرنے سے معاشر ے میں بد نظمی پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں بد کاروں کے لئے میدان خالی رہ جاتا ہے ۔ اس صورت میں دعا اس کے نتائج کو زائل کرنے کے لئے بے اثر ہے کیونکہ یہ کیفیت ان اعمال کا قطعی اور حتمی نتیجہ ہے۔
۴: خدائی عہد و پیمان کو وفا کرنا بھی دعا کی قبولیت کی شرائط میں شامل ہے ایمان ، عمل صالح ، امانت او ر صحیح کام اس عہد و پیمان کا حصہ ہیں ۔ جو شخص اپنے پروردگار سے کئے گئے عہد کی پاسداری نہیں کرتا اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئیے کہ پروردگار کی طرف سے اجابت دعا کا وعدہ اس کے شامل حال ہو گا۔
کسی شخص نے امیرالمؤمنین کے سامنے دعا قبول نہ ہو نے کی شکایت کی ۔وہ کہنے لگا : خدا کہتا ہے کہ دعا کرو تو میں قبول کرتا ہو ں ۔ لیکن اس کے با وجود کیا وجہ ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں اور وہ قبول نہیں ہوتی ۔ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا:
ان قلوبکم خان بثمان خصال :
اولہا انکم عرفتم اللہ فلم تؤدو احقہ کما اوجب علیکم فما اغنت عنکم معرفتکم شیئا۔
و الثانیہ انکم امنتم برسولہ ثم خالفتم بسنتہ و امنتم شریعتہ فاین ثمرة ایمانکم۔
و الثالثہ انکم قراتم کتابہ المنزل علیکم تعملو ا بہ و قلتم سمعنا و اطعنا ثم خالفتم۔
و الرابعہ انکم قلتم تخافون من النار و انتم فی کل وقت تقدمون الیھابمعاصیکم فاین خوفکم۔
و الخامسة انکم قلتم ترغبون فی الجنة و انتم فی کل وقت تفعلون ما یبا عد کم منھا فاین رغبتکم فیھا ۔
و السادسة انکم اکلتم نعمة المولی فلم تشکروا علیھا ۔
و السابعة ان اللہ امرکم بعد اوة الشیطان و قال ان الشیطان لکم عدد فاتخذوہ عدوا فعاد تیموہ بلا تول و والیتموہ بلا مخالفتہ۔
و الثامنة انکم جعلتم عیوب الناس نصب اعینکم و عیوبکم و راء ظھور کم تلومون من انتم احق باللوم منہ فای دعا یستجاب لکم مع ھذا و قد سدد تم ابوابہ و طرقہ فتقوا اللہ و اصلحوا اعمالکم و اخلصوا سرائکم و امروا بالمعروف و انھوا عن المنکر فیستجیب لکم دعا ئکم ۔

تمہارے دل و دماغ نے آٹھ چیزوں میں خیانت کی ہے جس کی وجہ سے تمہاری دعا قبول نہیں ہوتی:
پہلی : تم نے خدا کو پیہچان کر اس کا حق ادا نہیں کیا ۔ اس لئے تمہاری معرفت نے تمہیں کو ئی فائدہ نہیں پہنچایا۔
دوسری: تم اس کے بھیجے ہو ئے پیغمبر پر ایمان تو لے آئے ہو مگر اس کی سنت کی مخالفت کرتے ہو ۔ ایسے میں تمہارے ایمان کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔
تیسری: تم اس کی کتاب کو تو پڑ ھتے ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے ۔ زبانی تو کہتے ہو کہ ہم نے سنا او ر اطاعت کی مگر عملا اس کی مخالفت کرتے ہو ۔
چوتھی: تم کہتے ہو کہ ہم خدا کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔ اس کے با وجود اس کی نافرمانیوں کی طرف قدم بر ھاتے ہو ۔ تو پھر خوف کہاں رہا۔
پانجویں: تم کہتے ہو کہ ہم جنت کے شائق ہیں حالانکہ کام ایسے کرتے ہو جو تمہیں اس سے دور لے جاتے ہیں تو پھر رغبت و شوق کہاں رہا۔
چھٹی: خدا کی نعمتیں تو کھاتے ہو مگر شکر کا حق ادا نہیں کرتے ہو ۔
ساتویں : اس نے تمہیں حکم دیا کہ شیطان سے دشمنی رکھو ۔۔۔۔۔۔اور تم اس سے دوستی کی طرح ڈالتے ہو۔
آٹھویں: تم نے لوگوں کے عیوب کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے اور اپنے عیوب پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔
ان حالات میں تم کیسے امید رکھتے ہو کہ تمہاری دعا قبول ہو جب کہ تم نے خو د قبولیت کے دروازے بند کر رکھے ہیں ۔
تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو ۔ اپنے اعمال کی اصلاح کرو ۔ امر المعروف اور نہی عن المنکر کرو ، تا کہ تمہاری دعا قبول ہو سکے ۔4
اس سے ظاہر ہے کہ قبولیت دعا کا وعدہ خدا کی طرف سے مشروط ہے نہ کہ مطلق ۔شرط ہے کہ تم اپنے عہد و پیمان کو پورا کرو حالانکہ تم آٹھ طرح سے پیمان شکنی کر چکے ہو ۔
مندرجہ بالا آٹھ احکام جواجابت دعا کی شرائط ہیں انسان کی تربیت ، اس کی توانا ئیوں کو اصلاح یافتہ بنانے اور ثمر بخش راہ پر ڈالنے کے لئے کافی ہیں۔
۵۔ دعا کی قبولیت کی ایک شرط یہ ہے کہ دعا عمل اور کوشش کے ہمراہ ہو ۔ امیرالمؤمنین کے کلمات قصار میں ہے : الداعی بلا عمل کالرامی بلا وتر
عمل کے بغیر دعا کرنے والا بغیر کمان کے تیر چلانے والے کی مانند ہے ۔5
اس طرف توجہ رکھی جائے کہ چلہ کمان تیر کے لئے عامل حرکت اور ہدف کی طرف پھینکنے کا وسیلہ ہے تو اس سے تاثیر دعا کے لئے عمل کی اہمیت و اضح ہو جاتی ہے ۔


 

۱ سفینة البحار، ج ۱، ۴۴۸ و ص۴۸۹
۲ سفینة البحار، ج ۱،۴۴۸ و ص۴۴۹
۳ سفینة البحار، ج ۱ ص۴۸۹
4- سفینة البحار، ج ۱ ص۴۸۸و ۴۴۹
5- نہج البلاغہ، کلمات قصار نمبر ۳۳۷
 دعا کا حقیقی مفہوم: نتیجه
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma