خبط “ کا لغوی معنی ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
سود خوری قرآن کی نظر میںقرآن مجید کا طریقہ ہے

الذین یاکلون الربٰوا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس “ :
”خبط “ کا لغوی معنی ہے ”:راہ چلتے اور اٹھتے وقت بدن کو اعتدال پر نہ رکھ سکنا “۔ آیت میں سود خور کو آسیب زدہ اور دیوانہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو چلتے وقت اپنے بدن کو اعتدال میں نہ رکھ سکے اور صحیح طریقہ سے قدم نہ اٹھا سکے ۔
اس سے مراد دنیا میں سود خوروں کا اجتماعی چال چلن ہے کیونکہ ان کا یہ عمل دیوانوں کا سا ہے ۔ وہ صحیح اجتماعی فکر نہیں رکھتے یہاں تک کہ وہ اپنے فوائد کو بھی نہیں پہچان پاتے کیونکہ تعاون ، ہمدردی ، انسانی جذبے اور دوستی جیسے مسائل ان کے نزدیک کوئی مفہوم نہیں رکھتے ۔ دولت کی پرستش نے ان کی آنکھوں کو ایسا اندھا کر رکھا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پسے ہوئے طبقوں کا استحصال اور ان کی محنت و زحمت سے حاصل ہونے والے مال کی غارت گری ان کے دلوں میں دشمنی کا بیج بوئے گی اور معاملہ ایسے انقلابات اور تغیرات تک جا پہنچے گا کہ مالکیت کی بنیاد ہی خطرے سے دوچار ہوجائے گی اور ایسی صورت میں معاشرے میں سے امن و امان اور راحت و سکون ہوجائے گا ، اس طرح سود خود بھی راحت و آسائش کی زندگی نہیں گزار سکیں گے لہذا ان کا چال چلن دیوانوں کا سا ہے ۔
اس سے مراد حشر و نشر کے وقت کھڑا ہونا اور میدان قیامت میں آنا بھی ہوسکتا ہے ، یعنی سود خوار اس جہاں ،میں زندہ ہونے کے وقت دیوانوں اور آسیب زد ہ ا فراد کی طرح محشور ہوگا ۔اکثر مفسرین نے دوسرے احتمال کو قبول کیا ہے لیکن بعض نئے مفسرین نے پہلے احتمال کو ترجیح دی ہے لیکن انسان کے اعمال چونکہ اس جہان میں مجسم ہوکر محشور ہونگے لہذا ممکن ہے آیت کا اشارہ دونوں معنی کی طرف ہو یعنی دنیا میں جن لوگوں کا غیر عاقلانہ اور دیوانہ وار سرمایہ ا ندوزی ہے دوسرے جہان میں بھی وہ دیوانوں کی طرح محشور ہونگے ۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ روایات میں دونوں مفاہیم کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ آیت کی تفسیر میں ایک روایت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔ آپ نے فرمایا
”اٰکل الربٰوا لا یخرج من الدنیا حتی ٰ یتخبطہ الشیطان
سود خور جب تک پاگل پن کی ایک قسم میں مبتلا نہ ہوجائے دنیا سے نہیں جاتا ۔ (۱)
سود خور جو صرف اپنے منافع کی فکر میں رہتے ہیں اور ان کی دولت ان کے لیے وبال بن جاتی ہے ، ایسے لوگون کی حالت ایک روایت میں بیان کی گئی ہے ،پیغمبر اکرم سے منقول ہے :
” میں معراج پر گیا تو وہاں ایک گروہ کو اس حال میں دیکھاکہ ان کے پیٹ اتنے بڑے ہیں کہ وہ اٹھ کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں اور اٹھنے کی کوشش میں بار بار زمین پر گر جاتے ہیں ۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں اور ان کا جرم کیا ہے ۔ انہوں نے جواب دیا : یہ سود خور ہیں (۲)
پہلی حدیث اس دنیا میں سود خور وں کی پریشان حالی کو منعکس کرتی ہے اور دوسری میدان قیامت میں ان کے حالات بیان کرتی ہے دونوں ایک ہی حقیقت سے مربوط ہیں ۔ جیسے پیٹو لوگ بہت زیادہ موٹے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان میں بے عقلی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ سرمایہ دار بھی سود خوری کی وجہ سے موٹے ہوجاتے ہیں ان کی غیر صحیح اقتصادی زندگی ان کے لیے وبال بن جاتی ہے ۔
ایک سوال اور اس کا جواب
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنون اور آسیب کا سر چشمہ شیطان ہے جس کی طرف زیر مطالعہ آیت میں اشارہ ہوا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ آسیب اور جنون نفسیاتی بیماریوں میں سے ہیں اور ان کے زیادہ تر عوامل کی شناخت ہوچکی ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ ” مس الشیطان “ کی تعبیر نفسیاتی بیما ری اور جنون کے لیے کنایہ ہے اور عربوں کے درمیان یہ تعبیر عام تھی ، یہ نہیں کہ واقعا شیطان روح انسانی پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن بعید نہیں کہ بعض شیطانی کام اور بے سونچے سمجھے غلط اعمال ایک طرح کے شیطانی جنون کا سبب بنتے ہوں یعنی ان اعمال کے بعد شیطان کسی شخص پر اثر انداز ہو کر اس کے نفسیاتی اعتدال کو درہم و برہم کردیتا ہو ۔ علاوہ از یں جب غلط اور شیطانی کام پے در پے ہوتے رہیں تو ان کا یہ فطری اثر ہوتا ہے کہ انسان سے صحیح چیز کی تشخیص کا احساس اور منطقی طرز فکر چھن جاتی ہے ۔
سود خوروں کی منطق
ذلک بانھم قالوا انما البیع مثل الربٰوا
آیت کے اس حصے میں سود خوروں کی یہ منطق بیا ن کی گئی ہے کہ تجارت اور سود خوری میں کوئی فرق نہیں یعنی دونوں ایک ہی طرح کا لین دین ہیں جنہیں طرفین اپنے ارادہ و اختیا ر سے انجام دیتے ہیں ۔
قرآن ان کے جواب میں کہتا ہے : خدا نے بیع اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے ۔ یعنی ان دونوں کے درمیان واضح فرق ہے ۔ انہیںایک دوسرے سے مشتبہ نہیں کرنا چاہئے ( و احل اللہ البیع و حرم الربٰوا ) قرآن نے اس کی مزید تفصیل بیان اس لیے نہیں کی کہ یہ بالکل واضح ہے ۔ اس سلسلے میں بعض پہلو یہاں ذکر کیے جاتے ہیں :
۱۔ عام خرید و فروخت میں طرفین نفع و نقصان میں برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات دونوں کو نفع ہوتا ہے اور بعض اوقات دونوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور کبھی ایک کو نفع اور دوسرے کو نقصان ہوتا ہے جبکہ سودی معاملات میں سود خور کو کبھی نقصان نہیں ہوتا اور نقصان کے احتمال کا سارا بوجھ دوسرے کے کندھے پر پڑ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سودی ادارے دن بدن بڑے سرمایہ دار بنتے چلے جاتے ہیں ۔ ضعیف نحیف تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور دولت مندوں کی ثروت کا حجم ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے ۔
۲ ۔ عام تجارت اور خرید وفروخت میں طرفین تولید مال و مصرف کی راہ میں قدم اٹھاتے ہیں جبکہ سود خور اس سلسلے میں کوئی مثبت عمل سر انجام نہیں دیتا
۳۔ سود خوری کے عام ہوجانے سے سرمایہ غلط اور غیر صحیح راستے پر استعمال ہونے لگتا ہے اور اقتصاد کے ستون جو معاشرے کی بنیاد ہیں متزلزل ہوجاتے ہیں جبکہ تجارت سرمائے کی درست اور صحیح گردش کا سبب ہے۔
۴ ۔ سود خوری طبقاتی کشمکشوں اور جنگوں کا ذریعہ ہے جب کہ صحیح تجارت اس طرح نہیں ہے وہ معاشرے کو کبھی طبقاتی تقسیم اور اس سے پیدا ہونے والی جنگوں کی طرف نہیں کھنچتی ۔
فمن جاء ہ موعظة من ربہ فانتھیٰ فلہ ماسلف و امرہ الی اللہ
اس جملے میں کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کے پاس سود کی حرمت کے بارے میں خدائی نصیحت پہنچ جائے اور وہ یہ کام چھوڑ دیں ۔
جو سود وہ اس حکم کے نزول سے قبل لے چکے ہیں وہ انہی کی ملکیت ہے یعنی یہ قانون ہر دوسرے قانون کی طرح ماقبل پر لاگو نہیں ہوتا ، کیوں کہ ہمیں معلوم ہے کہ اگر قوانین گذشتہ امور پر بھی نافذ ہوجائیں تو بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں اور زندگی شدید اتار چڑھاؤ کا شکار ہوجائے ۔ اس لیے قوانین جب بنتے ہیں اس وقت سے نافذ ہوتے ہیں
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سود خواروں کے حساب میں اگر کچھ سود لوگوں کے ذمہ ابھی باقی تھا تو اس آیت کے نزول کے بعد بھی و ہ لے سکتے تھے ، ایسا نہیں ہے بلکہ جو سود وہ اس وقت لے چکے تھے وہ حلال کردیا گیا ہے
مزید فرمایا گیا ہے ۔و امرہ الی اللہ “ یعنی ان کا معاملہ قیامت میں خدا کے سپرد ہوگا ۔ اس جملے کا ظاہری مفہوم تو یہ ہے کہ سزا یا معافی کے بارے میں ان لوگوں کا مستقبل واضح ہے لیکن گذشتہ حصے کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مراد عفو ہی ہے گویا سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ جو لوگ پہلے یہ کام کرتے تھے ، ان کی معافی کا ذکر بھی صراحت سے کرنا پڑا ہے تاکہ بات مخفی نہ رہے
ومن عاد فالئک اصحٰب النار ھم فیھا خٰلدون
یعنی جو شخص خداتعالی کی طرف سے اس نصیحت اور بار بار کی تاکید کے باوجود اس عمل سے دستکش نہ ہو اسے چاہیئے کہ پرور دگار کے درد ناک اور دائمی عذاب کا منتظر رہے ۔
دائمی عذاب اگر چہ اہل ایمان کے لئے نہیں ہے لیکن آیت میں ایسے سود خوا ر مراد ہیں جو خدا سے جنگ اور دشمنی کرتے ہوئے نہایت ڈھٹائی سے اس گنا ہ کے مرتکب ہو تے ہیں ۔مسلم ہے کہ ایسے لوگوں کا ایمان صحیح نہیں ہے ۔اسی لئے آیت میں ان کے لئے دائمی عذاب کی خبر دی گئی ہے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہاں دوام سے مراد طولانی عذاب ہے نہ کہ دائمی اور اس کی مثال سورہ نساء کی آیت ۹۳ہے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیشہ سود خوری میں مبتلا ر ہنے کی وجہ سے انسان دنیا سے آنکھیں موندلے ۔
یمحق اللہ الربوا ویر بی الصدقٰت“:
”محق “کا معنی ہے ”نقصان “اور ” تدریجا َنابود ہونا اور ” ربا“ ”تدریجی رشد ونمو “کوکہتے ہیں ۔
سود خور چو نکہ اپنی دولت کے ذریعے محنت کش طبقے کے پسینے کی کمائی سمیٹتاہے اور بعض اوقات اس طرح سے ان کے وجود ہی کو ختم کر دیتا ہے یا کم از کم ان کے دل میں دشمنی پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے اور حالت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ سود خور کے خو ن کے پیا سے ہوجا تے ہیںاور یوں خود سود خورکی جان اورمال خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں ، قرآن کہتاہے :اللہ سودی سر مائے ونابودی کی طر ف لے جا تاہے ، تدریجا َواقع ہونے والی یہ نابودی جیسے سود خوروں کے لیے ہے اسی طرح سود خور معاشرے کے لیے بھی ہے ۔
ان کے مقابلے میں جولوگ انسانی جذبوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمدردی او رغمخواری کا راستہ اختیاکرتے ہیں ، اپنے مال او رسر مائے میں سے خرچ کرتے ہیں اور لوگوں کی احتیاج پوری کر نے کی کو شش کرتے ہیں انہیں عوام کی طرف سے محبت او راحترام حاصل ہو تاہے ۔ ان کا سرمایا نہ فقط یہ کہ خطرے سے دو چار نہیں ہو تا ہے بلکہ عوام کے تعاون سے طبیعی رشد حاصل کرتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتاہے : انفاق کرنے میں اللہ تعالی اضافہ عطا کرتا ہے یہ حکم فرد اور معاشرہ دونوں کے لیے ایک سا ہے ۔جس معاشرے میں عام لوگو ں کی ضروریات پوری کی جا تی ہیں اس کے محنت کش اور کاریگر طبقے کی فکر ی او رجسمانی صلاحیتیں بہتر طو رپر کام کرتی ہیں اور پھر یہی طبقہ معاشرے کی اکثریت ہو تاہے ، اس طرح سے ایک صحیح اقتصادی نظام وجود میں آتاہے ، جس کی بنیا دعوام کا تعاون اور عوام کی ضرورت کی کفالت پر استوار ہوتی ہے ۔
واللہ لا یحب کل کفار اثیم
”کفار“مادہ ”کفور “ ( بروزن ”فجور“)سے ہے کفور اس شخص کو کہتے ہیں جو بہت ہی ناشکرا اور کفران نعمت کرنے والا ہو اور ”اثیم “”زیادہ گناہ کرنے والے کوکہتے ہیں
اس جملے میں کہا گیا ہے کہ سو د نہ صرف یہ کہ راہ خدا میں خرچ نہ کرکے ، قرضہ حسنہ نہ دیکر اورعام ضرورت مندوں کے کا م نہ آکر خد اکی عطا کردہ نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے بلکہ اس کے ذریعے ہرقسم کا ظلم وستم اور گناہ و فساد کرتے ہیں اور یہ فطری بات ہے کہ خدا ایسے لوگوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
ان الذین آمنوا وعملواالصٰلحٰت واقاموا الصلٰوةواٰتواالزکواةلھم اجرھم عند ربھم “:
ناشکر گزار گنہ گار سود خوروں کے مقابلے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان کے زیر سایہ خود پرستی کو ترک کیے ہوئے اپنے فطری جذبوں کو زندہ کیے ہوئے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے پرور دگار سے رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ نماز قائم کرتے ہیں ، حاجتمندوں کے کا م آتے ہیں اور ان کی حما یت میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔اس طرح وہ سرما یہ کے ارتکاز ، طبقاتی کشمکش اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہزاروں جرائم کی راہ رد کیے ہوئے ہیں ۔ان کی جزا ان کے پروردگار کے پاس ہے اور وہ دونو ں جہانوں میں اپنے نیک عمل کے نتیجے سے بہرہ مند ہوںگے ۔فطری امر ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے اضطراب اور پریشانی کے عوامل پیدانہیں ہوتے اور جوخطرات مفت خور سرما یہ داروں کو لاحق تھے اور ان پرجو لعن طعن اور نفرین ہوتی تھی ایسے لوگوں پر نہیں ہوتی ۔
مختصر یہ کہ وہ مکمل راحت ،آرام اور اطمینا ن سے بہر ہ یاب ہوںگے اور ان کے لیے کسی قسم کا اضطراب اور غم واندوہ نہیں ہے ۔”ولا خوف ولا ھم یحزنون “۔
۲۷۸۔یٰا یھاالذین اٰمنوا اتقوا اللہ وذروا ما بقی من الربٰوآان کنتم موٴمنین
۲۷۹۔فان لم تفعلوا فاذنوابحرب من اللہ ورسولہ  وان تبتم فلکم روٴس اموالکم  لا تظلمون ولا تظلمون
۲۸۰۔وان کا دو ذوعسرة فنظرة الی میسرة وان تصدقو ا خیر لکم ان کنتم تعلمون
ترجمہ
۲۷۸۔اے ایمان والو !خدا سے ڈرو اورجو ربا(کا تقاضا ابھی )باقی ہے اسے چھو ڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔
۲۷۹۔اگر ایسا نہیں کرتے ہو تو پھر خدا اور رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجاوٴتوبہ کرلو(سود کے بغیر اصل )سر مایہ تمہا ری ہی ملکیت رہے گا ۔ تم ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیاجائے گا۔
۲۸۰۔ اور ا گر ( مقروض قرض)ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے اتنی مہلت دو کہ وہ ایسا کرسکے اور(اگر وہ با لکل اداکرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو )بخش دو تو بہتر ہے ۔اگر تم اس کا م کے فائدے سے )آگا ہ ہو۔
شان نزول
علی ا بن ا براہیم کی تفسیر میں ہے کہ سود کی آیات کے نزول کے بعد خالد بن ولیدنامی ایک شخص پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کہنے لگا :میرے باپ کے ثقیف قبیلے سے سودی معاملات تھے اور اس نے مطالبات وصول نہیں کیے تھے اور مجھے وصیت کرگیا تھا کہ اس کا سود ی مال جو اس نے ابھی تک وصول نہیں کیا حاصل کرلوں اور اسے اپنی تحویل میں لے لوں ۔ کیا یہ میرے لیے عمل جائز ہے ؟
اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیںاور لوگوں کو ایسے کام سے سختی سے روکا گیا ۔
ایک اورروایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم نے یہ آیت نازل ہونے کے بعد فرما یا۔
الاکل ربامن ربا الجا ھلیة موضوع واول ربا اضعہ ربا العباس ابن عبدالمطلب“:
آگا ہ رہو کہ زمانہ جاہلیت کے لوگوںکے تمام سودی مطالب چھور دیے جائیںاورسب سے پہلے میں عباس بن عبدالمطلب کے سودی مطالبات ترک کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔
اس روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ جب پیغمبر اکرم زمانہ جاہلیت کے سودی مطالبات پر سرخ قلم پھیر رہے تھے توآپ نے یہ کا م اپنے رشتہ داروں سے شروع کیا اور اگر ان میں عباس بن مطلب جیسے دولت مند افراد تھے کہ جو زمانہ جاہلیت میں دیگر سرما یہ داروں کی طرح اس گناہ میں آلودہ تھے تو آپ نے سب سے پہلے انہی کے سودی تقاضوں کو ممنوع قرار دیا۔
تفسیر


 
(۱)تفسیر نورتالثقلین ج ،۱،ص ۲۹۱
(۲)تفسیر نورالثقلین ج م ۱ ص ۲۹۱

پہلی آیت میںخد اتعالی نے ا ہل ایمان کو مخاطب فرمایا ہے ۔انہیں پرہیزگاری کی وصیت کے بعد فرماگیا ہے کہ اگر وہ ایمان رکھتے ہیں تو اپنے باقی ماندہ سودی مطالبات کو بھول جائیں ،یہ بات قابل توجہ ہے کہ آیت ایمان بااللہ سے شروع ہوتی ہے اور ایمان ہی کے تقاضے پر ختم ہوتی ہے ،یہ امر اس حقیقت کو واضح کرتاہے کہ سود روح ایمان کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔
فان لم تفعلوا فاذنوابحرب من اللہ و رسولہ “:
اس آیت میں قرآن نے اپنے لب و لہجہ کو بدل دیا ہے ۔ پہلی آیت کی نصیحتوں کے بعد اس آیت میں سود خوروں پر شدید حملہ کیا ہے اور انہیں خطرے کا الارم دیا ہے حکم ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنا کام جاری رکھا اور حق وحقیقت کے سامنے سر خم تسلیم نہ کیا اور اسی طرح محروم لوگوں کا خون چوستے رہے تو پیغمبر مجبور ہیں کہ فوجی طاقت سے انہیں روکیں اور حق کے سامنے جھکادیں ۔ حقیقت میں یہ پیغمبر کی طرف سے اعلان جنگ ہے ۔ یہ وہی جنگ ہے جو اس قانون کے تحت انجام پاتی ہے :
فقاتلوالتی تبغی حتی تفی ء الی امر اللہ “(حجرات : آیہ ۹)
تجاوز اور بغاوت کرنے والے گروہ سے جنگ کرو تاکہ وہ فرمان خدا کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ ( حجرات ۔۹)
یہی وجہ ہے کہ جب امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس شخص کے بارے میں سنا کہ وہ بڑی جرائت سے سود کھاتا ہے اور اس نے اس کا نام لیا ( دودھ ) رکھ رکھا ہے تو فرمایا :
” اگر مجھے اس پر دسترس حاصل ہوجائے تو اسے قتل کردوں--؛؛
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے جو اسلام میں حرمت سود کے منکر ہوں ۔
بہر صورت اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی حکومت طاقت کے ذریعہ سود خوری کو روک سکنے کی مجاز ہے
و ان تبتم فلکم رؤس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون “:
ارشاد ہوتا ہے : اگر توبہ کرلو اور سود خوری کی دوکان بڑھادو تو تہمیں حق پہنچتا ہے کہ لوگوں کے پاس جو تمہارا اصل سرمایا ہے ( سود چھوڑ کر ) وہ لے لو اور یہ قانون ہر طرح سے عادلانہ ہے کیونکہ یہ قانون ایک طرف تو تہمیں دوسروں پر ظلم کرنے سے روکتا ہے اور دوسری طرف تہمیں ظلم کے وار سے بچاتا ہے ۔ اس طرح نہ ظالم بنو گے اور نہ مظلوم
”لا تظلمون ولا تظلمون “ اگر چہ یہ سود خوروں کے بارے میں آرہا ہے لیکن در حقیقت یہ وسیع مفہوم کا حامل نہایت قیمتی اسلامی شعار ہے جو کہتا ہے کہ جس طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ظلم کرنے سے پرہیز کریں اس طرح اپنے آپ کو ظلم و ستم کے سپرد کرنے سے اجتناب کریں ۔ اصولی طور پر اگر ستم کش نہ ہوں تو ستمگر بھی کم پیدا ہوں گے  اگر مسلمان اپنے حقوق کے دفاع کو پورا حو صلہ اور آمادگی رکھتے ہوں تو کوئی ان پر ظلم نہیں کرسکتا لہذا ظالم کو ظلم سے منع کرنے سے پہلے مظلوم سے کہوکہ ظلم نہ سہے۔
و ان کان ذو عسرة فنظرة الی میسرة “:
قبل از یں بیان کیا جا چکا ہے کہ ( سود کے بغیر ) اصل سرمایہ طلبگار کا حق ہے اس آیت میں مقروض کا ایک حق بیان کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنا قرض اداکرنے سے عاجز ہو تو نہ صرف یہ کہ زمانہ جاہلیت کی رسم کے مطابق ان پر نیا سود نہ لگایا جائے اور انہیں ستایا نہ جائے بلکہ اصل قرض کی ادائیگی پر بھی انہیں مہلت دی جانا چاہیے تاکہ جب وہ واپس کرسکنے کے قابل ہوں اس وقت لوٹا سکیں۔قوانین اسلامی میں جو در اصل اس آیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہیں یہ تصریح ہوچکی ہے۔کبھی بھی مقروض افراد کے گھر اور دیگرضر وری وسائل کو فرق کرکے اس سے قرضہ وصول نہیں کیا جاسکتا بلکہ ضروریات زندگی سے زائد مال پر طلبگار اسی سے اپنا حق لے سکتے ہیں اور یہ انسانی معاشرے کے ضعیف اور پسماندہ طبقے کی بہت واضح حمایت ہے ؛
و ان الصدقوا خیر لکم ان کنتم تعلمون ۔،
اس سے بھی آگے بڑھ کر فرمایاگیا ہے :اگر مقروض اپنا قرضہ ادا کرنے سے واقعابالکل عاجز ہوتوبہتر ہے کہ طلب گار ایک عظیم تر انسانی قدم اٹھائے اور اپنے مال سے صرف نظر کرلے اور یہ اس کے لیے ہر لحاظ سے بہتر اور انسانی ہمدردی کا اچھا مظہر ہے اور جوشخص اس عمل خیر کے فوائد سے آگاہ ہو جائے گا وہ واقعیت کی تصدیق کرے گا۔
۲۸۱ ۔واتقووا یو ما ترجعون فیہ الی اللہ ثم تو فی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون
ترجمہ
۲۸۱ ۔اور اس دن سے ڈرو جب خدا کی طرف پلٹ جاوٴ گے اور پھر ہر شخص نے جو کچھ انجا م دیاہوگااسے لوٹا دیا جا ئے گا اور ان پر ظلم وستم نہیں ہو گا (بلکہ وہ جو کچھ بھی دیکھیں گے وہ ان کے اپنے اعمال کے نتائج ہو ںگے )
تفسیر
 

سود خوری قرآن کی نظر میںقرآن مجید کا طریقہ ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma