کس انفاق کی قدر وقیمت ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
آیت کے آخری حصے میںپرور دگا ر کی وسعتیہ آیت در حقیقت گذشتہ

اس آیت میں بھی انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر بطور مطلق آیا ہے اور اس میں ہر وہ نیک کا م شامل ہے جو خدا کے لئے انجام پذیر ہو ۔
ثم لا یتبعون ما انفقوا ما انفقوا منا و لا اذی“:
اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ بارگاہ پروردگار میں خرچ کرنے کی قبولیت تبھی ہے جب اس میں احسان جتلانے کا عمل نہ ہو اور کوئی ایسی چیز نہ ہو جو ضرورت مندوں کے لئے تکلیف و آزار کا باعث ہو ۔ اس بناء پر جو لوگ راہ خدا میں مال خرچ کرتے ہیں اور بعد میں احسان جتلاتے ہیں یا کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو اذیت اور تکلیف کا باعث ہو تو وہ در حقیقت اس نا پسند یدہ عمل سے اپنا اجر اور صلہ کھو بیٹھتے ہیں ۔
اس آیت میں جو بات اپنی طرف زیادہ توجہ مبذول کرواتی ہے یہ ہے کہ قرآن واقع میں انسانی زندگی کے سرمائے کو مادی سرمائے میں منحصر نہیں سمجھتا بلکہ روحانی اور اجتماعی سرمائے کو بھی شمار کرتا ہے ۔
جو شخص کوئی چیز کسی کو دیتا ہے اور پھر اسے احسان جتلاتا ہے یا تکلیف پہنچاکر دل شکستہ کرتا ہے حقیقت میں اس نے اسے کوئی چیز نہیں دی کیونکہ اگر کچھ سرمایہ اسے دیا ہے تو کچھ لے بھی لیا ہے ۔ اکژ تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ تحقیر و ذلیل اور روحانی شکستگی اسے دیے جانے والے مال سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے ۔ اس لیے اگر ایسے شخص کے لیے کوئی اجر اور ثواب نہ ہو تو یہ بالکل فطری اور عادلانہ معاملہ ہوگا بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے افراد بہت سے مواقع پر مقروض ہوتے ہیں نہ کہ قرض خواہ کیونکہ انسان کی عزت و آبرو مال سے کئی درجے برتر و بالا ہے ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ احسان جتانے اور اذیت پہنچانے کا ذکر آیت میں لفظ ”ثم -“کے ساتھ آیا ہے جو عام طور پر دو واقعات کے درمیان فاصلے اور اصطلاح میں ”تراخی “ کے لیے ہے ۔ اس لیے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ جو لوگ خرچ کرتے ہیں اور بعد میں منت و احسان جتلاتے ہیں نہ اذیت و تکلیف پہنچاتے ہیں ان کی جزااوراجر پروردگار کے پاس محفوظ ہے ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا مقصد صرف یہ نہیں کہ انفاق ادب و احترام سے اور احسان جتلائے بغیر ہو بلکہ بعد ازاں بھی احسان نہیں جتلایا جانا چاہیے۔ یہ امر اسلام کی انتہائی عمیق نظری اور انسانی خدمات میں خلوص کا پتہ دیتا ہے ۔
توجہ رکھنی چاہیے کہ احسان جتلانا اور اذیت پہنچانا جو انفاق کی عدم قبولیت کا سبب ہیں فقراء اور مساکین سے مخصوص نہیں بلکہ عمومی اور اجتماعی کاموں مثلا راہ خدا میں جہاد کرنا یا فلاح و بہبود کے کام جن میں مال خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے کے بجالانے میں بھی اس امر کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے ۔
لھم اجرھم عند ربھم
یہ جملہ خرچ کرنے والوں کو اطمینان دلاتا ہے کہ ان کی جزا پروردگا ر کے پاس محفوظ ہے تاکہ وہ دلی اطمینان سے اس راہ میں بڑھ چڑھ کر قدم اٹھائیں کیونکہ جو چیز خدا کے پاس ہے نہ اس کے نابود ہونے کا خطرہ ہے نہ اس کے نقصان کا اندیشہ ہے کیونکہ لفظ ” رب “ کے ساتھ ”ھم “ کی ضمیر ( جس کا معنی ہے ان کو پروردگار ) یہ گویا اس طرف اشارہ ہے کہ وہ ان کی پرورش کرتا ہے اور اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔
ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “ :
پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ ”خوف “ آئندہ کے امور کے بارے میں ہوتا ہے اور حزن و اندوہ گذشتہ امور کے بارے میں ۔خرچ کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کا اجر اور جزا بارگاہ خدا میں محفوظ ہے اس لئے نہ وہ آئندہ اور روز قیامت کا خوف رکھتے ہیں اور نہ راہ خدا میں بخش دیے جانے والے کے بارے میں کوئی ملال کرتے ہیں ۔
۲۶۳۔ قول معروف و مغفرة من صدقة یتبعھا اذی واللہ غنی حلیم
ترجمہ
۲۶۳۔( ضرورت مندوں کے سامنے ) پسندیدہ گفتگو اور عفو ( اور ان سے تلخ باتیں کہنے سے بچنا ) اس بخشش و عطا سے بہتر ہے جس کے بعد اذیت اور تکلیف پہنچائی جائے اور خدا بے نیاز اور برد بار ہے ۔

آیت کے آخری حصے میںپرور دگا ر کی وسعتیہ آیت در حقیقت گذشتہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma