ان نعمات فراواں کی تفصیل کے بعد جن سے خدا نے بنی اسرائیل کو نوازا تھا ۔ زیر نظر آیت میں ان عظیم نعمتوں پر ان کے کفران اور ناشکر گزاری کی حالت کو منعکس کیا گیا ہے ۔ اس میں اس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ کس قسم کے ہٹ دھرم لوگ تھے ۔ شاید تاریک دنیا میں ایسی کوئی مثال نہ ملے گی کہ کچھ لوگوں پر اس طرح سے الطاف الہٰی ہو لیکن انہون نے اس طرح سے اس مقابلے میں ناشکر گزاری اور نافرمانی کی ہو ۔
پہلے فرمایا گیا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب تم نے کہا اے موسٰی ہم سے ہر گز یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی غذا پر قناعت کرلیں ( من و سلویٰ کتنی ہی اچھی اور لذیز غذا ہو ہم مختلف قسم کی غذا چاہتے ہیں ) ( و اذ قلتم یٰموسٰی لن نصبر علی طعام واحد ) لہذا خدا سے خواہش کرو کہ وہ زمین سے جو کچھ اگایا کرتا ہے ہمارے لئے بھی اگائے سبزیوں میں سے ، ککڑی ، لہسن ، مسور اور پیاز ( فادع لنا ربک یخرج لنا مما تنبت الارض من بقلھا و قثائھا و فومھا و عدسھا وبصلھا لیکن موسٰی نے ان سے کہا : کیا تم بہتر کے بجائے پست غذا پسند کرتے ہو ( قال اتستبدلون الذی ھو ادنیٰ با الذی ھو خیر ) جب معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر اس بیابان سے نکلو اور کسی شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرو کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ وہاں ہے ( اھبطو امصرا فان لکم ما سئالتم )
اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے کہ خد انے ان کی پیشانی پر ذلت و فقر کی مہر لگا دی ( و ضربت علیھم الذلة و المسکنة ) اور وہ دوبارہ غضب الہٰی میں گرفتارہوگئے ( و با ؤا بغضب من اللہ )۔
یہ اس لئے ہوا کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے ( ذٰلک بانھم کانوا یکفرون بایات اللہ ویقتلون النبیین بغیر الحق ) یہ سب اس لئے تھا کہ وہ گناہ ، سر کشی اور تجاوز کے مرتکب ہوتے تھے ( ذٰلک بما عصوا و کانو ا یعتدون ) ۔