کیسے ما ل کو خرچ کر نا چاہیئے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ایک اور مثالشیطان تمہیں (خرچ کرتے وقت )

گذشتہ آیات میں انفاق کے ثمرات وفوائد اور خرچ کرنے والوں کی صفات بیا ن کی گئی ہیں نیز وہ اعمال بھی بتا ئے گئے ہیں جو انسان اور خدا پسند کا موں کو آلودہ کر سکتے ہیں اور ان کی جزاء اور ثواب ختم کر سکتے ہیں ۔اب ا س آیت میں یہ تشریح کی گئی ہے کہ کیسے ما ل کو خرچ کر نا چاہیئے ۔آیت کے پہلے حصہ میں خدا ایماندار لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے اموال میں سے ” طیبات “کو خرچ کریں ۔
ہم جا نتے ہیں کہ ”طیب “کا لغوی معنی پاکیزہ،، اور ” طیبات “اس کی جمع ہے ۔یہ لفظ جیسے ظاہری اور مادی پاکیزگی کے لئے بولا جا تا ہے اس طرح اس کی معنوی اور باطنی پا کیزگی پر بھی اس کا اطلاق ہو تا ہے۔یعنی وہ ما ل جو عمدہ ۔مفید اور قیمتی بھی ہے اور ساتھ ساتھ ہر قسم کے شبہ اور آلودگی سے بھی مبرا ہے ۔
وہ شان نزول جن کا ذکر کیا گیا ہے آیت کے معنی کی عمومیت کی بھی تائید کر تی ہے ۔
لستم باٰخذ یہ الاان تغمضو ا فیہ “(یعنی ،تم تیا ر نہیں ہو کہ غیر طیب ما ل قبول کرو ۔مگر چشم پوشی اور کراہت کے ساتھ )یہ جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ مراد صرف ظاہری پاکیزگی ہو کیو نکہ اہل ایما ن نہ اس کے لئے تیا ر ہوتے ہیں جو ما ل ظاہر ی طور پر آلو دہ اور بے قیمت ہو اسے قبول کرلیں اور نہ شبہ والے ،نا پسندیدہ اور مکروہ ما ل کو قبول کرتے ہیں مگر چشم پو شی اور کراہت کے ساتھ ،
ومما اخرجنا لکم من الارض
”ماکسبتم “(جو کچھ تم نے کسب کیا ہے)یہ لفظ تجارتی اموال کی طرف اشارہ ہے اور (”مما اخرجنا ۔۔۔۔۔۔۔“)زراعتی ،معدنی اور زیر زمین سر چشموں کی دولت کے بارے میں ہے ۔اس بناء پر تمام طرح کے اموال کا ذکرآ گیا ہے کیونکہ تمام اسانی اموال کی بنیاد زمین اور اس کے گوناگوں منابع ہیں ۔یہا ں تک کہ صنعتیں ،تجارتیں ، جانوروں کا کا روبا ر اور ایسی دیگر چیزوں کی بنیاد یہی ہے ۔
ضمناََاس جملے کے تمام منابع انسان کے اختیار میں دے دیے گئے ہیں ۔اس لیے راہ خدا میں کسی اچھے مال کو خرچ کر نے میں کو ئی مضائقہ نہیںسمجھنا چا ہیئے ۔
ولا تیمموالخبیث منہ تنفقون ولستم باٰخذیہ الاان تغمضوافیہ “:
بعض لوگوں کی عادت ہے کہ ہمیشہ وہ مال جو بے قیمت ہو اور تقریباََناقابل استعمال ہو اور خود ان کے لیے کام کا نہ ہو اسے خرچ کرتے ہیں ۔ایسے مخارج نہ انسان کی اپنی تر بیت کا باعث بنتے ہیں اور نہ انسانی روح کی پر ورش کا ذریعہ بنتے ہیں اور ضرورت مندوں کے لیے بھی یہ کوئی خاص فائدہ مند نہیں ہوتے بلکہ ایسے ان کی ایک طرح سے تحقیر وتوہین ہوتی ہے لہٰذا یہ جملہ لوگوں کوصراحت سے اس کا م سے منع کر رہاہے ۔فرمایا گیا ہے :ایسے مال سے کس طرح خرچ کرتے ہو جب کہ تم خود اسے کراہت ومجبوری کے سواقبول کرنے کو تیا ر نہیںہو ۔تو کیا تمہا رے مسلمان بھا ئی بلکہ اس سے بڑھ کر وہ خدا جس کی راہ میں خرچ کررہے ہو تمہاری نگاہ میں خود تم سے بھی کمتر ہے ۔آیت در حقیقت ایک با ریک نکتے کی طرف ا شارہ کررہی ہے اور وہ یہ کہ جو اخراجات اللہ کی راہ میں خرچ ہو تے ہیں ان میں ایک طرف تو حاجت مند،فقراء اور مساکین ہیں اور دوسری طرف خداہے جس کے لیے اخراجات کیے جا رہے ہیں ، اس حا لت میں اگر پست اور بے قیمت مال کا انتخاب کیاگیا تو ایک طرف پروردگارکے مقام بلند کی تو ہین شمار ہوگی کہ اسے طیب وپاکیز ہ اجناس کے لائق نہ سمجھا گیا اور دوسری طرف حاجت مندوں کی تحقیر ہے کیونکہ ممکن ہے تہی دست ہو نے کے باوجودوہ ایمان اور انسانیت میں مقام بلند رکھتے ہو ں اور وہ ایسے انفاق سے روحانی طور پر آزردہ اور دکھی ہوں ۔ضمناََاس با ت کی طرف بھی توجہ رہے کہ ”ولا تیمموا“ (یعنی ۔قصد نہ کرو )ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ اموال انفاق میںاگر نہ جانتے ہو ئے کوئی ناپسندیدہ چیزشامل ہوگئی ہے تواس گفتگو میں اس سے شامل نہیں سمجھنا چاہیئے بلکہ یہ گفتگو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو جا ن بوجھ کر ایسا کا م کرتے ہیں
وعلمواان اللہ غنی حمید “:
ارشاد فرمایا گیا ہے:جان لو کہ خداوندعالم بے نیا زاور لائق تعریف ہے یعنی اس امر کی طرف متوجہ رہو کہ اس خدا کی راہ میں خرچ کرہے ہو جسے تمہا رے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں اور حمد وستائش کے لائق و ہی ہے جس نے یہ تمام نعمتیں تمہا رے اختیا رمیں دی ہیں ۔
ممکن ہے ”حمید “کا معنی ”تعریف کرنے والا“یعنی بے نیا ز ہو نے کے باوجودجب تم خرچ کرتے ہو تووہ تمہاری تعریف کرتاہے۔اس لیے اپنے پاکیز ہ اموال سے خرچ کرنے کی کوشش کرو۔
 

ایک اور مثالشیطان تمہیں (خرچ کرتے وقت )
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma