مندرجہ بالا آیت میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جادوگر اذن پروردگار کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ اس میں جبر و اجبار کا مفہوم نہیں یہ توحید کے ایک اساسی اصول کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اس جہان کی تمام قدرتوں کا سرچشمہ قدرت خداہے۔ یہاں تک کہ آگ کا جلانا اور تلوار کا کاٹنا بھی اس کے اذن و فرمان کی بغیر نہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جادوگر عالم آفرینش میں خدا کے ارادے کے برعکس دخیل ہوں اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ خدا کی سلطنت میں کوئی اسے محدود کردے بلکہ یہ تو خواص و آثار ہیں جو مختلف موجودات میں پیدا کئے گئے ہیں بعض ان سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض غلط اور یہ آزاری و اختیار بھی انسانوں کی آزمایش اور ان کے تکامل کے لئے ایک زمینہ ہے۔