رشوت خواری ایک مصیبت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
4. ابتداء و انتهاء تقوی هی تقوی هے طبیعی اور فطری میزان اور پیمانے

۱۸۸۔ وَلاَتَاٴْکُلُوا اٴَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَاٴْکُلُوا فَرِیقًا مِنْ اٴَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَاٴَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ
۱۸۸۔ایک دو سرے کے اموال آپس میں باطل (و ناحق ) طریقے سے نہ کھاؤ اور گناہ کے ذریعے لوگوں کے مال کا ایک حصہ کھا نے کے لیے اس میں سے (کچھ مال) قاضیوں کو نہ دو جب کہ تم جا نتے ہو۔
تفسیر
اس آیت میں مسلمانوں کو ایک بہت نا پسندیدہ عمل سے رو کا گیا ہے۔ ان سے ارشاد ہوتا ہے: ایک دو سرے کے مال و دولت میں ناحق تصر ف نہ کرو اور غیر صحیح طریقے سے مال پر قبضہ نہ کرو، ایسانہ ہو کہ دوسروں کے مال میں تصرف کرنے اور اسے ناحق کھا نے سے انہیں قاضیوں کے روبرو جانا پڑ ے اور پھر انہیں بھی ہدیہ رشوت کے طور پر کچھ پیش کرنے لگیں تا کہ لوگوں کا مال ظلم سے اپنی ملکیت بنا سکیں اس کام میں وہ دو بڑی خلاف ور زیوں کے مرتکب ہو ئے میں
و اما الرشا فی الحکم فہو الکفر باللہ العظیم
باقی رہا فیصیلہ کرنے میں رشوت لینا ۔تو یہ خدا ئے عظیم سے کفر ہے۔۱۔

رسول اللہ ﷺ سے ایک مشہور حدیث منقول ہے جس کے الفاظ یہ میں ۔
لعن اللہ الراشی و المرتشی و الساعی بینہم
خدا اپنی رحمت سے دو رکھے رشوت لینے والے، رشوت دینے والے اور ان کے در میان واسطہ بننے والے کو
سورہ نساء کی آیت ۲۹ میں بھی ایساہی مفہوم بیان ہوا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : جائز اور صحیح تجارت کے بغیر جو کچھ تم اپنے قبضے میں لیتے ہو اس میں تصرف نہ کرو
زیر نظر آیت صراحت سے کہتی ہے کہ اگر کچھ لوگ رشوت کے ذریعے عدالت میں کامیاب ہو جائیں تو نزاعی مال ان پر حرام ہوگا اورظاہری طور پر کسی کے حق میں عدالت کے حکم سے وہ مال کا حقیقی مالک نہیں بن سکتا ۔ صراحت سے رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث میں منقول ہے۔آپ نے فرمایا:
میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ظاہری طریقے سے تمہارے در میان فیصلہ کروں، ہو سکتا ہے بعض لوگ دلیل قائم کرنے میں زیادہ قابل ہوں اور میں ظاہری دلیل کی وجہ ان کے حق میں فیصلہ کروں لیکن یہ جان لوکہ اگر میں کسی کے حق کا دو سرے کے لئے فیصلہ کر بھی دوںپھر بھی وہ جہنم کا ایک ٹکر ا اگراسے حاصل کرنے و الا آگ چاہتا ہے تو اس میں تصرف کر ے ور نہ اسے چھور دے۔2۔


ایک عظیم مصیبت جو زمانہ قدیم سے نوع انسانی کودا من گیر ہے اور جو آج کل تو بڑی شدت سے رائج اور جاری و ساری ہے وہ رشوت ہے ۔ عدالت اجتماعی کی راہ میں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ رہی ہے اور آج بھی ہے ۔ اسی کے سبب وہ قوانین جو کمز وروں کے تحفظ کے ضامن تھے ۔ طاقتوروں کے ان مظالم کے حق میں استعمال ہو تے،ہیں قانون جہنیں محدود کرنا چا ہتا تھا کیونکہ طاقتور اور قوی لوگ تو ہمیشہ اپنی قوت کے بل بوتے پر اپنی منافع کی حفاظت کر سکتے میںزیہ تو ضعیف اور کمز و لوگ ہی، ہیں جن کے منافع اور حقوق کی حفاظت قانون کو کرنا ہے ۔ واضح ہے کہ اگر رشوت کا دروازہ کھلا رہے تو قوانین کا نتیجہ با لکل بر عکس نکلے گا کیونکہ قوی لوگ تو رشوت دینے کی قدرت رکھتے ، ہیں اس کے نتیجے میں ان کے ہا تھوں قوانین کمزور لوگوں کے حقوق پر ظلم و ستم اور تجاوز جاری رکھنے کے لیے ایک کھیل بن کررہ جائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ جس معاشرے میں رشوت نفوذ کرے گی وہاں زندگی کا شیرازہ بکھر کررہ جائے گا اور ظلم و فساد، نا انصافی او رتبعیض کا دور دورہ ہو گا اور قانون عدالت برائے نام باقی رہ جائے گا۔ اسی لیے اسلام نے رشوت خوری کو پوری شدت کے ساتھ قباحت قرار دیا ہے ، اس کی مذمت کی ہے اور اسے گناہان کبیرہ میں سے قرار دیا ہے ۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ رشوت جیسی برائی اور قباحت دو سرے پر فریب ناموں سے انجام پاتی ہے ۔ رشوت خوار اور رشوت دینے والا اس کے لیے ہدیہ ، حق حساب حق زحمت اور انعام جیسے الفاظ استعمال کر تے میں ۔ لیکن واضح ہے کہ ناموں کی یہ تبدیلی کسی طرح بھی اس کی ماہیت اور حقیقت کو نہیں بدل سکتی۔ ہر صورت میں جو بھی پیسہ اس طریقے سے وصول ہو گا وہ، حرام اور ناجائز ہے۔
نہج البلاغہ میں اشعث بن قیس کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ وہ حضرت علی کے محکمہ عدل میں اپنے مد مقابل پر کامیابی کے لیے رشوت لے کرآیا۔ ہوایوں کہ رات کے وقت اسک لذیذ حلو ے سے بھرا ہوا بر تن لے کر حضرت علی کے دروازے پر آیا ۔ وہ اسے ہدیہ قرار دے رہاتھا۔ حضرت علی نے غصے سے فرمایا:
ہبلتک الہبول اعن دین اللہ اتیتنی لتخذ عنی و اللہ لواعطیت الا قالیم السبعة بما تحت افلاکہا علی ان اعصی اللہ فی نملة اسلبہا جلب شعیرة ما فعلة وا ن دنیا کم عندی لاہون من ورقہ فی فم جرادة تقضمہا ما لعلی و لنعیم یفنی و لذرة لا تبقی
سوگوار تجھ پر روئیں ۔ کیا تو اس لیے آیا ہے کہ مجھے فریب دے اور مجھے دین حق سے باز رکھے خدا کی قسم اگر سات اقلیم سب چیزوں کے سمیت جوان کے آسمانون کے پنجے ہیں مجھے و ے دی جائیں صرف اس کے بد لے کہ میں چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا ظلم سے چھین لوں تو میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ یہ دنیا میرے نزدیک ٹڈی کے منہ میں چبا ئے ہو ئے پتے سے بھی زیادہ بے وقعت ہے ۔ علی کو فنا ہو نے والی نعمتوں اور جلد گزر جا نے والی لذتوں سے کیا کام۔
اسلام رشوت کی ہر شکل و صورت کو مذموم سمجھتا ہے۔ پیغمبر اسلام کی تاریخ حیات کا ایک واقعہ ہے کہ آپ کو ایک مرتبہ خبر ملی کہ آپ کی طرف سے معین ایک حاکم نے ہدیہ کے نام پر رشوت قبول کر لی ہے ۔ آنحضرت غبضناک ہو ئے اور اس فرمای
کیف تاخذ مالیس لک بحق؟
تو وہ چیز کیوں لیتا ہے جو تیرا حق نہیں ہے
اس نے جواب میں معذرت کر تے ہو ئے کہا :
لقد کانت ہدیہ یا رسول اللہ؟
اے رسول خدا !میں نے جو کچھ لیا وہ تو ہدیہ تھا
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
ارایت لوقعد احد کم فی دارہ و لم نولہ عملا اکان الناس یہدونہ شیئا؟
اگر تم گھروں میںبیٹھے رہو اور میری طرف سے کسی جگہ پر عامل و حاکم نہ بنو تو کیا پھر بھی لوگ تمہیں ہدیہ دیتے میں۔
اس کے بعد آپ نے حکم دیا اور اس سے وہ ہدیہ لے کر بیت المال میں داخل کر دیا گیا اور اسے آپ نے معزول کر دیا ۔۱۔
اسلام نے تو یہاں تک اہتمام کیا ہے کہ قاضی کہیں مخفی رشوتوں میں مبتلا نہ ہو جا ئے ۔ اسلام نے حکم دیا ہے کہ قاضی خود بازار میں نہ جائے
۱۸۹۔
یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْاٴَہِلَّةِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاٴَنْ تَاٴْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ ظُہُورِہَا وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اتَّقَی وَاٴْتُوا الْبُیُوتَ مِنْ اٴَبْوَابِہَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ
۱۸۹۔ لوگ آپ سے مہینے میں چاند کی مختلف صورتوں کے بارے میں پوچھتے میں ۔ کہئیے کہ یہ تقسیم اوقاف (اور طبیعی تقویم) مظہر ہیں نیز یہ لوگوں (کے نظام زندگی ) کے لیے اور حج کے وقت (کے تعین) کے لیے ہیں (اور جیسے زمانہ جاہلیت میں مروج تھا کہ حج کے موقع پر جب لوگ احرام باندھ لیتے تو پھر گھر۔کے درواز ے سے اندر نہیں آتے تھے بلکہ عقب سے داخل ہوتے تھے) یہ نیک کام نہیں کہ عقب مکان سے اندر آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ تقوی اختیار کرو اور گھرروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو اور خدا کی نافرمانی سے پرہیز کرو تا کہ کامیاب ہو جاوٴ۔
شان نزول
منقول ہے کہ :
معاذ بن جبل رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ ہم سے بار بار یہ سوال کیا جا تا ہے کہ یہ چاند کیسا ہے اور یہ تدریجا بدر کامل کی صورت کیوں اختیار کرتا ہے اور پھلی دوبارہ بہلی حالت پر لوٹ آتا ہے؟
ان سوالات کے جواب میں محل نظر آیت نازل ہوئے جس میں بتا یا گیا کہ چاند کی مختلف صوتیں انسانی نظام زندگی کیلئے بہت سے فوائد کی حامل ہیں ۔
تفسیر
جیسا کہ اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ کچھ لوگ پیغمبر اسلام ﷺ سے چاند کے متعلق سوالات کر تے تھے ۔ اس سوال کے جواب میں خداوند عالم نے پیغمبر ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ چاندکے آثار و فوائد بیان کریں ۔ انہیں بتائیں کہ مہینوں کی ابتداء طلوع ہلال کی صورت میں اور پھر تدریجا اس کی تبدیلی عبادت اور دینی فرائض کی انجام دہی نیز مادی نظام زندگی کے لیے بہت کار آمد ہے۔ یہ اس لیے ہے تا کہ لوگ آسانی سے اپنے تجارتی امور اور دیگر پروگراموں کو ترتیب دے سکیں نیز وعدوں او رعہد و پیمان کے لئے وقت کا تعین کر سکیں ۔ اس طرح روزہ رکھنے اور حج جیسی عظیم عبادت کی انجام دہی کے لیے مخصوص وقت ہے جس کے تعین کے لیے بہترین راستہ چاند کی وضع و کیفیت ہے ۔ چاند دیکھ کرلوگ ہمیشہ ابتداء ، وسط اور آخر ماہ کی تشخیص کر سکتے ہبں اور اپنے امور کو اس کے مطابق ترتیب و ے سکتے ہیں۔
حقیقت میں چاند ایک (طبیعی تقویم )ہے جو تمام افراد بشر کے لیے عام ہے ۔ اس سے تمام لوگ چا ہے وہ پڑ ھے لکھے ہوں یا ان پڑ ھ اور دنیا کے کسی بھی حصے میں آباد ہوں اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔ اس سے فقط آغاز ،وسط اور آخر ماہ کو نہیں پہچانا جا سکتا بلکہ غورو خوض سے مہینے کے ہر دن کی تشخیص کی جا سکتی ہے ۔ واضح ہے کہ تقویم اور جنتری یعنی لوگوں کے لیے تاریخ کے تعین کا دقیق ذریعہ نہ ہو تو اجتماعی زندگی کا نظام نہیں چل سکتا ۔ اسی بناء پر خدائے بزرگ و برتر نے نظام زندگی کی بقاء کے لئے یہ عالمی تقویم عنایت فرمائی ہے۔


 

۱۔وسائل، ج۲۱، باب ۵، من البواب مایکتسبون
2۔ فی ظلال ،ج۱،ص ۲۵۲
3۔ الامام علی، جلد ۱، ص۱۵۵،ہ۱۵۶

 

 

4. ابتداء و انتهاء تقوی هی تقوی هے طبیعی اور فطری میزان اور پیمانے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma