اوپر والی آیت ان میں سے ہے جو عقیدہ تناسخ کی صریحا نفی کرتی ہیں کیونکہ تناسخ کا عقیدہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوسری دفعہ اسی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے البتہ ہوتا یہ ہے کہ اس کی روح دوسرے جسم اور دوسرے نطفے میں حلول کرکے نئے سرے سے اسی دنیا میں زندگی کا آگاز کرتی ہے اور ممکن ہے اسی سلسلہ کا بارہا تکرار ہو ۔اس جہان میں اس مکرر زندگی کو تناسخ یا عود ارواح کہتے ہیں ۔ مندرجہ بالا آیت صراحت سے بیان کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک سے زیادہ زندگی نہیں ہے معلوم ہے کہ یہ حیات وہی معاد و قیامت کی حیات ہے ۔بہ الفاظ دیگر آیت کہتی ہے کہ مجموعی طور پر تمہاری دو زندگیاں اور دو اموات تھیں اور ہیں پہلے مردہ تھے ( بے جان عالم موجودات میں تھے ) خدا وندے عالم نے تمہیں زندہ کیا پھر وہ مارے گا اور دو بارہ زندہ کرے گا ۔ اگر تناسخ صحیح ہوتا تو انسان کی حیات اور موت کی تعداد دودو سے زیادہ ہوتی
یہی مضمون قرآن کی اور متعدد آیات میں بھی نظر آتا ہے جن کی طرف اپنی اپنی جگہ اشارہ ہوگا۔(۱)
اس بنا ء پر تناسخ کا عقیدہ جسے عود ارواح بھی کہا جاتا ہے قرآن کی نظر میں باطل اور بے اساس ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس روشن عقلی دلیلیں بھی موجود ہیں جو اس عقیدہ کی نفی کرتی ہیں جن سے یہ ایک قسم کا دقیانوسی اور قانون تکامل کی رجعت قہقری کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے ۔ اس کے متعلق اس کی اپنی جگہ گفتگو کی گئی ہے(۲)
اس نکتے کا ذکر کرنابھی ضروری ہے کہ شاید بعض لوگ مندرجہ بالاآیت کوبرزخ کی زندگی کی طرف اشارہ قرار دیں حالانکہ آیت اس پرکسی طرح دلالت نہیں کرتی صرف اتنا کہتی ہے کہ پہلے تم بے جا ن جسم تھے خداوندعالم نے تمہیں پیدا کیادوبارہ وہ تمہیں مارے گا جو اشارہ ہے اس دنیا کی زندگی کے اختتام کی طرف پھر تمہیں زندہ کرے گا (یہ حیات آخرت کی طرف اشارہ ہے ) اور اسی کی طرف تم اپنی سیر تکامل جاری رکھوگے۔