اسلام کی نظر میں ازدواجی زندگی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
دوقابل غور نکات ماہواری میں جنسی ملاپ کے نقصانات

لفظ ”نکاح“ لغت میں جنسی ملاپ اور عقد ازدواج دونوں معنی میں بیان کیاگیاہے۔ یہاں عقد ازدواج ہی مراد ہے۔ اسلام کی نظر میں ازدواجی زندگی کی بہت اہمیت ہے یہی وجہ ہے کہ وراثت کے معاملات اور گھر کے تربیتی ماحول کے اولاد پر اثرات کے پیش نظر اسلام نے بیوی یا شوہر کے انتخاب میں مختلف شرائط معین کی ہیں۔
مشرک عورت مسلمان مرد کی کفو اور بیوی بننے کے اہل نہیں اور بالفرض وہ بیوی بن جائے تو بچے اس کے خیالات اور صفات بھی وراثت میں حاصل کریں گے اور اسی کی گود میں تربیت پائیں گے (جیسا کہ اکثر ہوتاہے) تو ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ براہی نکلے گا۔ لہذا قرآن اس آیت میں مشرک اور بت پرست عورتوں سے شادی کرنے سے منع کرتاہے ۔ اس سے قطع نظر ایک پہلو یہ بھی ہے مشرکین اسلام سے بیگانہ ہوتے ہیں اگر وہ شادی کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں میں راہ و رسم پیدا کرلیں تو اسلامی معاشرہ ہرج و مرج اور داخل دشمنوں کا شکار ہوجائے گا۔ اس طرح کفر و اسلام کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکیں گی۔ قرآن تو مشرک عورتوں کو صاحب ایمان کنیزوں کا ہم پلہ بھی قرار نہیں دیتا لیکن قرآن نے ان کے لیے دروازہ بند بھی نہیں کیا۔ ان سے جنسی تعلق کے قیام کی صورت وہ یہ بتاتا ہے کہ اگر وہ ایمان لے آئیں تو ان سے شادی بیاہ ہوسکتاہے۔
مشرکین کون ہیں
قرآن میں ”مشرکین“ کا لفظ زیادہ تر بت پرستوں کے لیے استعمال کیاگیاہے۔ لہذا جہاں کہیں یہ لفظ آئے، یہ تو مسلم ہے کہ اس کے مفہوم میں بت پرست ضرور شامل ہیں، یہی وجہ سے کہ قرآن کی بہت سی آیات میں مشرکیں کا لفظ اہل کتاب (یہود ، نصاری اور مجوس) کے مقابلے میں آیاہے۔
بعض مفسرین کا اعتماد ہے کہ مشرک کے مفہوم میں یہود، نصاری اور مجوس سمیت سب کفار شامل ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر فریق خدا کے شریک کا قائل ہے۔ نصاری تثلیث کے قائل ہیں ، مجوس تنویت یا دوگانہ پرستی پر اعتماد رکھتے ہیں، اور یہودی عزیر کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں۔
یہ عقائد اگرچہ شرک آور ہیں لیکن اس طرف دیکھتے ہوئے کہ قرآن کی بہت سی آیات میں مشرک، اہل کتاب کے مقابلے میں آیا ہے، قرآنی اصطلاح میں اس کا مفہوم بت پرست ہی نکلتاہے۔
پیغمبر اسلام سے منقول ایک مشہور حدیث ہے۔ اس میں آپ نے اپنی وصیتوں میں فرمایاہے کہ مشرکین کو حتمی طورپر جزیرة العرب سے نکال دو۔ اس میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ اہل کتاب جزیرة العرب سے نہیں نکالے گئے اور وہ جزیہ ادا کرکے ایک مذہبی اقلیت کے طور پر اسلام کی پناہ میں زندگی بسر کرتے رہے۔
اس بناء پر مندرجہ بالا آیت میں اہل کتاب شامل نہیں ہیں۔
”و لا تنکحوا المشرکین حتی یؤمنوا و لعبد مؤمن خیر من مشرک و لو اعجبکم“
جس طرح مومن مردوں کو مشرک اور بت پرست عورتوں سے شادی کرنے سے منع کیاگیاہے اس جملے میں کافر اور مشرک مردوں سے مسلمان عورتیں بیاہنے سے روکاگیاہے۔ نیز جس طرح مومن کنیزیں کافر آزاد عورتوں سے شادی کی نسبت بہتر ہیں چاہے کافر عورتیں حسن و جمال اور مال و منال میں بالاتر ہی کیوں نہ ہوں اسی طرح صاحب ایمان غلام، خوبصورت اور بظاہر با حیثیت کافروں سے برتر اور بہتر ہیں لیکن مومن عورتوں کی شادی کافر مردوں سے اس وقت تک منع ہے جب تک وہ کافر ہیں اور اگر وہ ایمان قبول کرلیں تو ان سے شادی کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ یہ بازگشت کا ایک راستہ ہے جس کی طرف آیت کی ابتداء میں بھی اشارہ ہواہے۔
”اولئک یدعون الی النار و اللہ یدعوا الی الجنة و المغفرة باذنہ“
اس جملے میں اہل ایمان کی مشرک اور بت پرستوں سے شادی کرنے کی حرمت کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ مشرک سے شادی کرنا اس لیے حرام ہے کہ مشرک انسان اپنے ساتھی کو بت پرستی اور ایسی ناپسندیدہ صفات کی دعوت دیتاہے جن کا سرچشمہ بت پرستی ہے ، خصوصا بت پرست سے یہ معاشرت زنا کے حوالے سے بہت خطرناک ہے اور اس کے اثرات بہت زیادہ اور بہت گہرے ہیں۔ گویا بت پرست سے معاشرت کا انجام غضب خدا کے آگ کی سوا کچھ نہیں۔ خلاصہ یہ کہ بت پرستوں سے آشنائی خصوصا شادی بیاہ کے دریچے سے خدا سے نا آشنائی کے مترادف ہے اور ان سے نزدیکی خدا سے دوری کا باعث ہے جب کہ مومنین اپنے ایمان اور سرچشمہ ایمان سے پھوٹنے والی بلند صفات کی بدولت اپنے ساتھیوں کو ایمان اور فضیلت کی دعوت دیتے ہیں جس کا انجام جنت، مغفرت اور خدا کی بخشش ہے۔
مومنین کا رابطہ چونکہ خدا سے بہت گہراہے اس لیے آیت میں خدا نے مومنین کے بجائے اپنا نام لیاہے ۔ فرماتاہے:
” و اللہ یدعو الی الجنة و المغفرة باذنہ“
ممکن ہے خدا کی دعوت سے مراد بت پرستوں سے شادی کی حرمت کا حکم ہی ہو، جس کا نتیجہ جنت اور خدا کی مغفرت ہے اور اس میں بھی کوئی مانع نہیں کہہ آیت دونوں مفاہیم کی حامل ہو۔
۲۲۲۔وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ اٴَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِی الْمَحِیضِ وَلاَتَقْرَبُوہُنَّ حَتَّی یَطْہُرْنَ فَإِذَا تَطَہَّرْنَ فَاٴْتُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ اٴَمَرَکُمْ اللهُ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِین
۲۲۳۔نِسَا ئُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَاٴْتُوا حَرْثَکُمْ اٴَنَّی شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِاٴَنفُسِکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا اٴَنَّکُمْ مُلاَقُوہُ وَبَشِّرْ الْمُؤْمِنِینَ
ترجمہ
۲۲۲۔ اورتم سے خون حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ وہ نقصان دہ اور ناپاکی کی ایک حالت ہے۔ لہذا ماہواری کے دوران میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کرو (اور ان سے ہم بستری نہ کرو)۔ جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ اور جب وہ پاکیزہ ہوجائیں تو جس راہ سے خدا نے تمہیں حکم دیاہے ان سے ملاپ کرو۔ خدا توبہ کرنے والوں کو پسند کرتاہے اور پاک رہنے والوں کو بھی خدا دوست رکھتاہے۔
۲۲۳۔تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں۔ جب چاہو تم ان سے ملاپ کرو (لیکن کوشش کرو کہ اس طبیعی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیک اولاد کی پرورش کرو، اس طرح نیک تاثیر ) اپنے لیے آگے بھیجو ، خدا سے ڈرتے رہو اور جان لوکہ اس سے ملاقات ضرور ہوناہے اور مومنین کو رحمت کی بشارت دو۔
شان نزول
عورتیں ہر ماہ میں کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ دس دن نماز، روزہ سے فارغ رہتی ہیں۔ ان دنوں میں فقہی کتب میں درج مخصوص اوصاف کا خون رحم عورت سے خارج ہوتاہے۔ اس حالت میں عورت کو حائض کہتے ہیں اور اس خون کو خون حیض کہاجاتاہے۔ یہود و نصاری کا موجودہ دین حائض عورتوں سے مباشرت کے بارے میں ایک دوسرے سے متضاد احکام رکھتاہے ۔ یہ صورت ہر شخص کو سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
یہودیوں کا ایک گروہ کہتاہے کہ ایسی عورتوں کے ساتھ مردوں کا رہنا سہتاہی بالکل حرام ہے۔ یہاں تک کہ ایک دسترخوان پر کھانے اور ایک کمرے میں رہنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے مطابق جس جگہ حیض والی عورت بیٹھی ہو وہاں مرد کو نہیں بیٹھنا چاہئیے اور بیٹھ جائے تو اپنا لباس دھوئے ورنہ وہ نجس ہے اور اگر اس کے بہتر پر سوجائے تو لباس بھی دھوئے اور غسل بھی کرے۔ خلاصہ یہ کہ ان ایام میں عورت کو ایک ناپاک شے اور لازم الا جتناب و جود سمجھا جاتاہے۔
یہودیوں کے اس گروہ کے بر عکس عیسائی کہتے ہیں کہ عورت کی حالت حیض اور غیر حیض میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں۔ حالت حیض میں بھی ان سے ہر طرح کی معاشرت ، میل جول یہاں تک جنسی ملاپ پر بھی کوئی قدغن نہیں۔
مشرکین عرب، خصوصا اہل مدینہ کم و بیش یہودیوں کے اخلاق و عادات سے مانوس تھے اور حائض عورتوں سے یہودیوں کاسا سلوک روا رکھتے تھے۔ ماہواری کے دنوں میں ان سے الگ رہتے تھے۔
اسی دنیی اختلاف اور ناقابل معافی افراط و تفریط کے باعث بعض مسلمانوں نے پیغمبر اکرم سے اس بارے میں سوال کیا اور جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔
 

 

دوقابل غور نکات ماہواری میں جنسی ملاپ کے نقصانات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma