شفاعت کوئی پارٹی بازی نہیں ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
کیا خالق کابھی کوئی خالق ہے ؟ دین قبول کرنے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے

”شفاعت “کا مفہوم ہے ایک قوی مجود کا ضعیف تر موجود کی مدد کرنا تاکہ وہ آسانی سے تکامل و ارتقاء کے مراحل طے کر سکے البتہ یہ لفظ عموماً گناہگاروں کی شفاعت کے بارے میں استعمال ہوتا ہے لیکن شفاعت کے وسیع تر معنی میں عالم ہستی کے تمام عوامل اور علل و اسباب شامل ہیں  مثلاً زمین پانی ہوا اور سورج کی روشنی چار عامل ہیں جو جو دانے کو ایک مکمل درخت یا مکمل سبزے کے مرحلے تک پہنچانے میں شفاعت اور ہدایت کرتے ہیں اب اگر مذکورہ آیت کو اس وسیع معنی میں دیکھا جاے ٴ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ عالم ہستی مختلف عوامل اور اسباب کا وجود خدا کی مالکیت مطلقہ کو ہر گز محدود نہیں کرتا کیونکہ ان تمام اسباب کی تاثیر اس کے حکم سے ہے اور در اصل اس کی قیومیت اور مالکیت کی نشانی ہے
 بعض لوگ سمجھتے ہیں شفاعت بھی بلا وجہ کسی کی سفارش کرنے کی طرح ہے اور ایک طرح کی پارٹی بازی ہے کہا جاتا ہے کہ اسکا مفہوم یوں ہے لوگ جو چاہیں گناہ کریں اور جب سر سے پاوئں تک گناہ میں ڈوب جائیںتو شفیع کا دامن پکڑ لیں اور اس طرح کہتے پھریں !
 ان دم کہ مردمان بہ شفیعی زنندہ دست
 مائیم و دست و دامن اولاد فاطمہ
 یعنی جب دوسرے لوگ کسی شفیع کا دامن تھامیں گے تو ہم اولاد فاطمہ کا دامن اور ہاتھ تھام لیں گے
 اعتراض کرنے والوں نے شفاعت کے بارے میں دین کی منطق کو نہیں سمجھا اور نہ اس گناہ گارجسور اور بے پروا گروہ نے اسے سمجھا جو ایسی باتیں کرتا ہیںکیونکہ جیاس کہ بیان کیا جا چکا ہے شفاعت جو خدا کے خاص بندے کریں گے شفاعت تکوینی کی طرح ہے جو طبیعی عوامل کے ذریعے انجام پاتی ہے جیسے ایک دانے میں اگر عامل حیات اور زندگی کے سیل life cells موجود نہ ہوںتو ہزاروں سال تک سورج کی تپش ، باد نسیم اور بارش کے حیات بخش قطرے اسے نشو نما اور رشد نہیں دے سکتے ،اس طرح اولیاء خدا کی شفاعت بھی نا لائق افراد کے لئے بے اثر ہے یعنی اصولی طور پر وہ ایسے افراد کی شافعت نہیں کریں گے شفاعت ایک طرح کے معنوی ربط کی محتاج ہے یہ ربط شفاعت کرنے والے اور جس کی شفاعت ہو رہی ہے اس کے درمیان درکار ہے اس لئے جو شفاعت کی امّد رکھتا ہے اسکا فرض ہے کہ اس جہان میں اس شخص سے معنوی رابطہ پیدا کرے جس سے وہ شفاعت کی توقع رکھتا ہے اور حقیقت میں یہ ربط ہی شفاعت حاصل کرنے والے کے لئے تربیت کا ایک ذریعہ ہوگا یہ تعلق اسے شفاعت کرنے والے کے افکار ، اعمال اور مکتب کے قریب کرے گا اور اس کے نتیجہ میں وہ شفاعت کے اہل ہو جاے گا
 اس سے واضح ہوا کہ شفاعت ایک عامل تربیت ہے نہ کہ پارٹی بازی یا فرائض سے فرار کا ذریعہ یہ بھی واضح ہو گیا کہ شفاعت گناہگار کے بارے میں میں پروردگار کے ارادے میں تغیر و تبدیل پیدا نہیں کرتی بلکہ گناہگار ہی شفاعت کرنے والے سے معنوی ربط کے ذریعے ایک تکامل و تربیت حاصل کرتا ہےاور ایسی سر حد میں جا پہنچتا ہے جہاں وہ عفو خدا کے اہل ہو جاتا ہے (غور کیجئے گا )(۱)
 ” یعلم ما بین اید یہم وما خلفہم “
 گزشتہ جملے میں بیابن کیا گیاہے کہ شفاعت بار گاہ الٰہی میں حکم خدا ہی سے ممکن ہے زیر نظر جملے میں اسکی دلیل کے طور پر فرمایا گیا ہے کہ خدا شفاعت کرنے والوں کے گذشتہ اور آئندہ حالات سے آگاہ ہے اور جو کچھ ان سے پنہان ہے اسے جانتا ہے اس لئے وہ خدا کے سامنے جنکی شفاعت کر رہے ہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی بات پیش نہیں کر سکتے جس سے خدا ناواقف ہو اور جس کی وجہ سے وہ ان کے سلسے میں اپنے حکم میں نظر ثانی کرے
 اس کی وضاحت یہ ہے کہ سفارش کا عاماسلوب یہ ہے کہ سفارش کرنے والا جس کی سفارش کر رہا ہے اس کی اہلیت و لیاقت کا ذکر کرتا ہے یا پھر جس کی سفارش کر رہا ہے اس سے اپنا ارتباط بیان کرتا ہے تاکہ جس سے سفارش کی جارہی ہے وہ سفارش کرنے والے کی خاطر اپنے حکم میں تبدیلی کر سکے واضح ہے کہ دونو ں صورتوں میں سفارش کرنے والا در اصل نئی معلومات فراہم کر رہا ہوتا ہے لیکن جس سے سفارش کی جارہی ہے اگر وہ ہر چیز اور ہر شخص کے بارے میں پہلے ہی پوری طرح سے آگاہ ہے تو پھر کوئی شخص بھی اسکی بارگاہ میں کسی کی سفارش نہیں کر سکتا کیونکہ وہی سفارش کے لئے اہل لوگوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہی شفاعت کی اجازت دینے والا ہے
 ” یعلم ما بین اید یہم وما خلفہم “ پروردگار کی قدرت کاملہ اسکے مقابلہ میں دوسروں کا قدرت سے تہی ہونے پر تاکید بھی ہے کیونکہ جو اپنے گذشتہ اور آئندہ سے بے خبر ہے اور آسمانوں اور زمین کے غیب کا علم نہیں رکھتا اسکی قدرت بہت ہی محدود ہوگی لیکن وہ ذات جو ہر دور میں ہر چیز سے آگاہ ہے اس کی قدرت ہر لحاظ سے لا متناہی ہے اس لئے ہر اقدام یہاں تک کہ شفاعت بھی اس کے فرمان کے تابع ہے  اس جملے کا ربط آیت کے گذشتہ جملوں اور مسئلہ شفاعت سے واضح ہے اب یہ سوال باقی ہے کہ مابین ایدیہم (ان کے سامنے ) وما خلفھم (اور ان کے پیچھے سے کیا مراد ہے اس سلسے میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دونوں تعبیریں قرآن مجید میں کبھی مکان کتے بارے میں اور کبھی زمان کے بارے میں استعمال ہوئی ہیں مثلاً سورہٴ آل عمران آیہ ۱۷۰ میں 
 ”و یستبشرون بالذین لم یلحقو بھم من خلفھم “
 شہیدان راہ خدا انہیں بشارت دیتے ہیں جو ابھی ان سے ملحق نہیں ہو ے ٴ
 واضح ہے کہ یہاں تقدیم و تاخیرزمانی ہے  لیکن سورہٴ اعراف آیہ ۱۷ میں ہے
 ”ثم لا تینّھم من بین ایدیھم و من خلفھم و عن ایمانھم و عن شمائلھم “
 میں ان کے سامنے سے ،ان کے پیچھے سے ،انکی دائیں طرف سے ، اور انکی بائیں طرف سے آوئنگا
 یہ سامنے اور ہیچھے مکان کے لحاظ سے ہے البتہ محل بحث آیت میں ہو سکتا ہےجامع معنی ہو جس میں زمان اور مکان دونوں شامل ہوں یعنی خدا وند عالم گذشتہ اورآئندہ سے اسی طرح لوگوں کے سامنے اور پس پشت جو کچھ ہے اگر چہ لوگوں سے پوشیدہ و پنہاں ہے  سب کچھ جانتا ہے اور سب سے آگاہ ہے اس کی بار گاہ علم میں زمان و مکان کی وسعت اور پہنائی واضح ہے اور شفاعت کرنے والے اسکے سامنے کوئی نئی اطلاع پیش نہیں کر سکتے
 ”ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء “
 یہ جملہ بھی در حقیقت سابقہ جملے کی تاکید کے طور پر ہے اورعلم خدا کے مقابلہ میں شفاعت کرنے والوں کے محدود علم کی طرف اشارہ ہے کیونکہ وہ پروردگار کے علم پر احاطہ نہیں رکھتے اور خدا جس قدر چاہے وہ اتنا ہی باخبر ہوتے ہیں
 اس جملہ سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص بھی اپنی طرف سے کوئی علم نہیں رکھتا اور انسان کے تمام علوم خدا کی طرف سے ہیں وہی ہے جو رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ تدریجاً جہان آفرینش کے حیرت انگیز اسرار سے پردہ اٹھاتا ہے اور نئے حقائق انسان کے ہاتھ میں دیتا ہے اور اسکیمعلومات میں وسعت پیدا کرتا ہے
 اس جملہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ممکن ہے خدا بعض علوم غیب بعض منتخب لوگوں کو دے دے اور کچھ لوگو ں کو اسرار غیب سے آگاہ کر دے  اس بناء پر یہ بات ان لوگوں کا جواب ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ علم غیب تو انسان کے لئے ممکن ہی نہیں نیز یہ ان آیات کی بھی تفسیر ہے جو بشر کے لئے علم غیب کی نفی کرتی ہیں یعنی انسان ذاتی طور پر اسرار غیب میں سے کسی چیز کو نہیں جانتا مگر یہ کہ خدا علم دے اور جس قدر دے وہ اس قدر جان لیتا ہے (مزید وضاحت انشاء اللہ غیب
 سے مربوط آیات کے ذیل میں اے ٴ گی
 عرش و کرسی سے کیا مراد ہے ؟
 ”وسع کرسیہ السّمٰوات والارض “
 لفظ کرسی اصل لغت کے لحاظ سے ”کرس “ (بر وزن ارث ) سے ہے جسکا معنی ہے اصل ،اساس اور بنیاد بعض اوقات ہر اس چیز کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے پیستہ اور ترکیب شدہ ہو اسی بناء پر چھوٹے تخت کو کرسی کہتے ہیں  اس کا نقطہ مقابل عرش ہے جسکا معنی ہے” چھت والی چیز“ چھت یا ”بلند پایہ تخت
 کیونکہ استاد اور معلم تدریس کے وقت کرسی پر بیٹھتا ہے لہٰذا بعض اوقات لفظ کرسی علم کے لئے کنایہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے کرسی چانکہ انسان کے اختیار اور کنٹرول میں ہوتی ہے اس لئے کبھی کبھار یہ لفظ حکومت و قدرت و فرمانروئی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے
 مندرجہ بالا آیت میں ہے کہ خدا کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لئے ہوے ٴ  یہاں لفظ کرسی چند معا نی میں ممکن ہے
 ۱۔ قلمرو اور حکومت کا علاقہ : یعنی خدا تمام آسمانوں اور زمینوں پر حکومت کرتا ہے اور اسکا نفوز تمام جگہوں پر محیط ہے اس معنی میں خدا کی کرسی سے مراد عالم مادہ کا مجموعہ ہے چاہے وہ زمین ہو یا ستارے ، کہکشائیں ہو یا بادل
 یہ فطری امر ہے کہ کرسی کا یہ مفہوم ہو تو عرش اس جہان مادہ سے کسی بالاتر اور عالی تر مرحلے کا نام ہونا چاہئے کیو نکہ یہ بات بیان کی جا چکی ہے عرش کا معنی کرسی کے برعکس لغت میں چھت ، سائبان اور بلند پایہ تخت ہے اس صورت میں عرش کا معنی عالم ارواح ،ملائکہ جہان ماوراء طبیعت ہوگا البتہ یہ اس صورت میں ہے جب عرش و کرسی ایک دوسرے کے مدّمقابل ہوں تاکہ ایک عالم مادہ و طبیعت اور دوسرا عالم ماوراء طبیعت کہلا سکے لیکن جیسا کہ سورہ ٴ اعراف کی آیہ۵۳ کے زیل میں آے گا کہ عرش کے کچھ اور معانی بھی ہیں خصوصاً اگر وہ کرسی کے مقابلہ میں نہ ہو تو پھر ممکن ہے اسکا معنی تمام عالم ہستی ہو
 ۲وسعت علم کا علاقہ : یعنی خدا کا علم تمام آسمانوں اور زمین پر محیط ہے او کوئی چیز بھی اسکے حکومت علم سے باہر نہیں جیسا کہ کہا جا چکا ہے کہ کرسی بعض اوقات علم کے لئے کنایہ ہوتی ہے کئی ایک روایات میں بھی یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے حفص ابن غیاث امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں :میں نے آنحضرت سے پوچھا کہ ”وسع کرسیہ السّمٰوات والارض“ سے کیا مراد ہے
 آپ نے فرمایا
 اس سے اس کا علم مراد ہے
 ۳ ۔آسمانوں اور زمین سے وسیع تر چیز : یعنی ایک ایسا موجود جو آسمانوں اور زمینوں سےزیادہ وسعت رکھتا ہے جو ہر ہر طرف سے ان پر محیط ہے اس آیت کا معنی ہوگا کہ خدا کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین کو اٹھاے ٴ ہوے ٴ ہے اور ان پر محیط ہے ایک حدیچ میں امیر المومنین  سے یہی تفسیر منقول ہے ااپ فرماتے ہیں :
 الکرسی محیط بالسّمٰوات والارض وما بینھما وما تحت الثریٰ “
 یعنی کرسی زمین آسمان جو کچھ ان میں ہے اور جو کچھ زمین کی گہرایئوں میں ہے سب پر احاطہ کئے ہوئے ہے
 یہاں تک کہ کچھ روایات میں معلوم ہوتا ہے کہ کرسی آسمانوں اور زمین سے اس قدر وسیع تر ہے کہ وہ سب کے سب کرسی کے مقابلے میں اس انگوٹھی کی طرح ہیں جو وسط بیابان میں پڑی ہو  امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے :
 ما السمٰوات والارض عند الکرسی الا کحلقة خاتم فی فلاة وماالکرسی عند العرش الا کحلقة فی فلاة “
 آسمان اور زمین کرسی کے مقابلے میں بیابان میں پڑی ہوئی انگشتری کے حلقہ کی طرح ہیں اور کرسی بھی عرش کے مقابلہ میں بیابان میں پڑی ہوئی انگشتری کے حلقہ کی طرح ہے
 پہلا اور دوسرا معنی تو قابل فہم اور واضح ہے ہے لیکن تیسرا معنی ایسا ہے کہ ابھی تک علم و دانش بشر اس سے پردہ نہیں اٹھا سکے کیونکہ ایسے عالم کا وجود جو آسمانوں اور زمین پر بھی محیط ہو اور ہمارے جہاں سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہو ابھی تک مروج علمی ذرائع سے ثابت نہیں ہو سکا اگر چہ اسکی نفی پر بھی کوئی دلیل موجود نہیں  جدید علوم کے تمام ماہرین معترف ہیں کہ علوم و مطلعات نجوم کے وسائل اورذرائع کی ترقی ساتھ ساتھ آسمان و زمین کی وسعت ہماری نظر میں بڑھتی جارہی ہے اور کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ عالم ہستی کی وسعت بس اتنی ہے جتنی آج کے علم نے بتائی ہے بلکہ قوی احتمال ہے کہ بے شمار عالم ایسے ہوں جو آج کے وسائل اور ذرائع کی نگاہ سے اوجھل ہوں
 یہ بات کہے بغیر نہ رہ جاے ٴ کہ مندرجہ بالا تینوں تفاسیر ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھتیں اور ”وسع کرسیہ السّمٰوات والارض“ان تمام معانی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے یعنی
 پروردگار کی حکومت مطلقہ اورقدرت کا نفاذ ،
 ۔علمی نفوذ و احاطہ
 ۔ایسا وسیع تر جہان جو آسمانوں اور زمین پر محیط ہو
 بہر صورت یہ جملہ آیت کے پہلے جملوں کی تکمیل کرتا ہے جو پروردگار کے علم کی وسعت کے بارے میں تھے
 خلاصہ اور نتیجہ یہ کہ پروردگار کا تخت حکومت اورقدرت تمام آسمانوں اور زمین کو گھیرے ہوے ٴ ہے اس کے علم ع دانش کی کرسی تمام عالمین پر محیط ہے اور کوئی چیز اسکے حکومت اور علم سے خارج نہیں
 ولا یئودہ حفظھما “
 یئودہ “اود (بروزن ) قول سے ہے اس کا معنی ہے سنگینی “ یعنی آسمانوں اور زمین کی نگرانی خدا تعالیٰ کے لئے کسی قسم کی سنگینی ، بوجھ اور مشقت کا باعث نہیں کیونکہ وہ اپنی مخلوق اور بندوں کی طرح نہیں کہ جنکی قدرت محدود ہے اور لا محدود قدرت کے لئے اصولی طور پر سنگینی و آسانی ، مشقت و راحت کا مفہوم نہیں
 یہ سب مفاہیم تو محدود قوتو ں پر صادق آتے ہیں
 اوپر ہم جو کہہ چکے ہیں اس واضح ہوتا ہے کہ ”یئودہ “کی ضمیر خدا کی طرف لوٹتی ہے آیت کے سابقہ و لاحقہ جملے بھی اسی کے شاہد ہیں کیونکہ ان کی ضمیرین بھی سب خدا کی طرف لوٹتی ہیں  اس بناء پر یہ احتمال بہت ضعیف دکھائی دیتا ہے جس کے مطابق یہ ضمیر کرسی کی طرف لوٹتی ہے اور جس کے مطابق معنی یہ ہوتت ہے کہ آسمانوں اور زمین کی حفاظت کرسی کے لئے سنگین اور بوجھل نہیں
 ”و ھو العلی العظیم “

کیا خالق کابھی کوئی خالق ہے ؟ دین قبول کرنے میں کوئی جبر و اکراہ نہیں ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma