دعا کا حقیقی مفہوم:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 دعا اور زاری کا فلسفہ:  دعا کی قبولیت کی شرائط:

ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ دعا کا مقام وہ ہے جہاں قدرت و طاقت جواب دے جائے نہ وہ کہ جہاں طاقت و توانائی کی رسائی ہو۔ دو سر ے لفظوں میں اجابت و قبولیت کے قابل وہ دعا ہے اٴَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ  (نمل۔۶۲)اس آیت کامفہوم یہ ہے: کون ہے جو کسی مصیبت زدہ اور بے قرار کی دعا سنتاہے اور اس کی فریاد رسی کرکے اسے مصیبت سے نجات دلاتاہے: مترجم)
کے مطابق اضطرار اور تمام کوششوں اور مساعی کے بے کار ہو جا نے پر ہو۔ اس سے واضح ہوا کہ دعا ان اسباب و عوامل کی فراہمی کے لئے کی جاقی ہے جو انسانی بساط سے با ہر ہوں اور ان کا تقاضا اس کی بارگاہ میں کیا جا تا ہے جس کی قدرت لا متناہی ہے اور جس کے لئے ہر فعل ممکن، آسان ہے۔ لیکن چاہیئے کہ یہ درخواست فقط انسان کی زبان سے نہ نکلے بلکہ اس کے تمام وجود سے نکلے اور زبان اس سلسلے میں تمام ذرات ہستی اور اعضا و جوارح کی نمائند گی کرے اور قلب و روح دعا کے ذریعے اس سے قریبی تعلقات پیدا کر لے ۔ اس قطر ے کی طرح جو بے کنار سمند رسے مل جاتا ہے قدرت اس عظیم مبدا کے ساتھ اتصال معنوی حاصل کرلے۔ ہم جلد ہی اس ارتباط اور تعلق کے روحانی اثرات پر بحث کریں گے۔
البتہ متوجہ رہنا چا ہیئے کہ دعا کی ایک قسم وہ بھی ہے جو قدرت و توانائی کے ہو تے ہوئے انجام پاتی ہے تا ہم وہ دعا بھی اسباب ممکنہ کی قائم مقام نہیں ہو سکتی اور وہ دعا وہ ہے جو اس بات کی نشاند ہی کرتی ہے کہ اس جہان کی تمام قدرتیں اور توانائیاں پرودگار عالم کی قدرت کے مقابلے میں استقلال نہیں رکھتیں دو سر ے لفظو ں میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس حقیقت کی طرف متوجہ رہا جائے کہ طبیعی عوامل اور اسباب کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس ذات با برکت کی طرف سے ہے اور اس کے حکم و فرمان سے ہے۔ اگر کوئی دوا کے ذریعے شفاء کا خواہاںہوتا ہے تو وہ بھی اس لئے کہ اس نے دوا کو یہ تاثیر بخشی ہے یہ یھی ایک قسم کی دعا ہے جس کی طرف احادیث اسلامی میں اشارہ ہوا ہے مختصر یہ کہ یہ دعا کی وہ قسم ہے جسے خودآگاہی او ر فکر و نظر اور ول و دماغ کی بیداری کہا جاسکتا ہے یہ اس ذات سے ایک باطنی رشتہ ہے جوتمام نیکیوں اور خو بیوں کا مبدا و مصد رہے۔ اسی لئے حضرت علی علیہ السلام کے ارشادات میں ہے۔
لا یقبل اللہ عزوجل دعاء قلب لاہ
خدا غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔1
ایک اور حدیث میں امام صادق سے یہی مضمون مروی ہے:
ان اللہ عزوجل لا یستجیب دعا بظہر قلب ساہ)2
یہ خود دعا کے فلسفوں کی ایک اساس ہے جن کی طرف اشارہ ہو چکا ہے۔


 

1- اصول کافی، ج۲، ص ۷۴۳
2- اصول کافی، ج۲، ص ۷۴۳

 دعا اور زاری کا فلسفہ:  دعا کی قبولیت کی شرائط:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma