جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
خدا پرستی ، آگاہی ، روشن فکری اور علم و دانش انسان سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں

یہ آیت در اصل گذشتہ آیت کے مفاہیم کی تکمیل کرتی ہے ۔ اس میں چند ایک احکام مزید بیان فرمائے گئے ہیں
۱۔ اگر لین دین کرتے وقت دستاویز لکھنے والا میسر نہ ہو ، جیسا کہ سفر میں پیش آتا ہے تو قرض لینے والا دوسرے کی تسلی کے لیے کوئی چیز گروی کے طور پر دے دے (” و ان کنتم علی سفر و لم تجدو اکاتبا فرھٰن مقبوضہ “)۔
بادی النظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رہن کا قانون سفر سے مخصوص ہے لیکن اگلے جملے ولم تجدو کاتبا  ( کاتب میسر نہ آئے تو ) سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفر کا ذکر مثال کے طور پر ایسے موقع کے لیے آیا ہے جب دستاویز لکھنے والا میسر نہ ہو ۔ اس بنا پر وطن میں بھی طرفین صرف رہن پر اکتفا کرسکتے ہیں ۔ تفاسیراہلبیت میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ شیعہ و سنی کتب احادیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبر اسلام نے اپنی زرہ ایک غیر مسلم کے پاس قرض لینے کے لیے رہن کے طور پر رکھی تھی ۔
۲۔ رہن حتمی طور پر قرض دینے والے کے پاس رہنا چاہیے تاکہ اسے اطمینا ن رہے فرھٰن مقبوضہ تفسیر عیاشی میں ہے کہ امام صادق فرماتے ہیں ۔
لا رھن الا مقبوضہ “ :
رہن ہی نہیں مگر وہ کہ جو طلب گار کی تحویل میں ہو ۔
۳۔ دستاویز لکھنا ۔ گواہ بنانا اور رہن رکھنا سب احکام ایسے مواقع کے لیے مخصوص ہیں جہاں طرفین ایک دوسرے کے بارے میں مکمل طور پر اطمینا ن نہ رکھتے ہوں ورنہ قرض دینے والے کو کسی دستاویز کی کوئی ضرورت نہیں اور مقروض کو بھی چاہیے کہ وہ اس کے اعتماد کا احترام کرے اور بر محل اس کا حق ادا کردے اور تقوی کو فراموش نہ کرے ۔
فان امن بعضکم بعضا فلیئود الذی او تمن امانتہ ولیتق اللہ ربہ “ (۱)
(۱)اوٴتمن“امن کے مادہ سے ہے ۔ اس کا معنی ہے اطمینان خاطر۔ اس سے مراد وہ مقروض ہے جسے امین سمجھا گیا ہے ۔ دوسرے جملے مین امنت سے مراد قرض ہے ۔
۴۔ لین دین کا موقع ہو یا کوئی اور  اصولی طور پر جو لوگ جانتے ہیں کہ کس کا کیا حق ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ جب انہیں گواہی کے لیے بلایا جایے تو وہ گواہی کو نہ چھپائیں کیونکہ گواہی کو چھپانا عظیم گناہوں میں شمار ہوتا ہے ” ولا تکتموالشھادة ط ومن یکتمھا فانہ آثم قلبہ
یہ واضح ہے کہ گواہی دینا اس صورت میں ہم پر واجب ہے جب دوسرے اپنی شہادت سے حق کو ثابت نہ کریں اگر کچھ لوگ اپنی گواہی سے حق ثابت کردیں تو باقی لوگوں پر سے یہ ذمہ داری ساقط ہوجاتی ہے ۔ اصطلاح میں گواہی دینا واجب کفائی ہے ۔
شہادت کا مخفی رکھنا اور موقع کے مطابق اس کا اظہار نہ کرنا ، یہ عمل چونکہ دل ہی کی مرضی سے انجام پاتا ہے اس لیے مزید تاکید کے طور پر گناہ کی نسبت دل کی طرف دی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے: اس کا دل گنہگار ہے ۔
آیت کے آخر میں امانت اور دیگر حقوق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ توجہ اور بیداری کے لیے فرمایا گیا ہے کہ پروردگار تمہارے کردار سے باخبر ہے(”واللہ بما تعملون علیم “)
۲۸۴۔ للہ ما فی السموٰت و ما فی الارض  و ان تبدو اما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ اللہ  فیغفر لمن یشاء و یعذب من یشاء  واللہ علی کل شیء قدیر
ترجمہ

۲۸۴۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کا مال ہے ( لہذا جو کچھ تمہارے دل میں ہے اسے ظاہر کردو یا پوشیدہ رکھو خدا تمہارا حساب اس کے مطابق ہی کرے گا ۔ پھر جسے چاہے گا ( اور جو اہل ہوگا ) اسے بخش دے گا اور جسے چاہے گا ( اور وہ مستحق ہوگا ) اسے عذاب دے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

خدا پرستی ، آگاہی ، روشن فکری اور علم و دانش انسان سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma