قبلہ کی تبدیلی کا واقعہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
غیر خدائی رنگ دھو ڈالوسفہار:

اس آیت اور اس کے بعد کی چند آیات میں تاریخ اسلام کی ایک اہم تبدیلی کی طرف اشارہ کیا گیاہے جس سے لوگوں میں ایک عظیم طوفان بر پا ہوگیاتھا۔ اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ بعثت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں اور چند ماہ تک مدینہ میں پیغمبر اسلام حکم خدا سے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن اس کے بعد قبلہ بدل گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مکہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں۔ مدینہ میں کتنے ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی رہی اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے۔ یہ مدت سات ماہ سے لے کہ سترہ ماہ تک بیان کی گئی ہے لیکن یہ جتنا عرصہ بھی تھا اس دوران یہودی مسلمانوں کو طعن زنی کرتے رہے کیونکہ بیت المقدس در اصل یہودیوں کا قبلہ تھا وہ مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی قبلہ نہیں بلکہ ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ ہم حق پرہیں۔ یہ باتیں پیغمبر اکرم اور مسلمانوں کے لئے ناگوار تھیں۔ ایک طرف وہ فرمان الہی کے مطیع تھے اور دوسری طرف یہودیوں کے طعنے ختم ہونے کو نہ آتے تھے۔ اسی لئے پیغمبر اکرم آسمان کی طرف دیکھتے تھے گویا وحی الہی کے منتظر تھے۔ اس انتظار میں ایک عرصہ گذر گیا یہاں تک کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر ہوا۔ ایک روز مسجد بنی سالم میں پیغمبر نماز ظہر پڑھارہے تھے۔ دو رکعتیں پڑھ چکے تھے کہ جبریل کو حکم ہوا کہ پیغمبر کا بازو تھام کر ان کا رخ انور کعبہ کی طرف پھیر دیں۔۱
اس واقعے سے یہودی بہت پریشان ہوئے اور اپنے پرانے طریقے کے مطابق ، ڈھٹائی، بہانہ سازی اور طعن بازی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ پہلے تو کہتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے بہتر ہیں کیونکہ ان کا کوئی اپنا قبلہ نہیں یہ ہمارے پیروکار ہیں۔ لیکن جب خدا کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا تو انہوں نے پھر زبان اعتراض دراز کی۔ چنانکہ محل بحث آیت میں قرآن کہتاہے:۔
بہت جلد کم عقل لوگ کہیں گئے ان (مسلمانوں) کو کس چیز نے اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ پہلے تھے (سَیَقُولُ السُّفَہَاءُ مِنْ النَّاسِ مَا وَلاَّہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمْ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا) مسلمانوں نے اس سے کیوں اعراض کیاہے جو گذشتہ زبانے میں انبیاء ما سلف کا قبلہ رہاہے۔ اگر پہلا قبلہ صحیح تھا تو اس تبدیلی
کا کیا مقصد اور اگر دوسرا صحیح ہے تو پھر تیرہ سال اور چند ماہ بیت المقدص کی طرف رخ کرکے کیوں نماز پڑھتے رہے ہیں۔
خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتاہے: ان سے کہہ دو عالم کے مشرق و مغرب اللہ کے لئے ہیں وہ جسے چاہتاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتاہے (قُلْ لِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ
ان حیلہ بازوں کے جواب میں یہ ایک قطعی اور واضح دلیل تھی کہ بیت المقدس اور کعبہ سب اللہ کی ملکیت ہیں۔ خدا کا ذاتی طور پر تو کوئی گھر نہیں ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ فرمان خدا کا پاس کیاجائے۔ جس طرف خدا حکم دے ادھر نماز پڑھی جائے وہ مقام مقدس و محترم ہے اور کوئی جگہ حکم خدا کے بغیر ذاتی اہمیت نہیں رکھتی۔ حقیقت میں قبلہ کی تبدیلی آزمائش اور تکامل کے مراحل میں سے ہے ان میں سے ہر ایک ہدایت الہی کا مصداق ہے اور وہی ہے جو انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتاہے۔


 

۱ مجمع البیان، ج۱، ص۲۲۴

غیر خدائی رنگ دھو ڈالوسفہار:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma