روزے کے تربیتی و اجتماعی اثرات:

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
روزہ تقوی کا سرچشمہ ہے:  روزہ گذشتہ امتوں میں:

روزے کے کئی جہات سے گوناگون مادی اور روحانی آثار ہیں۔
جو اس کے ذریعے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم اس کا اخلاقی پہلو اور تربیتی فلسفہ ہے۔
روح انسانی کو لطیف تر بنانا ارادہ انسانی کو قوی کرنا اور مزاج انسانی میں اعتدال پیدا کرنا روزے کے اہم فوائد ہیں سے ہے۔
رازے دار کے لئے ضروری ہے کہ حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہ جائے اور اسی طرح جنسی لذات سے چشم پوشی کرے اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے۔
روح انسانی کو لطیف تر بنانا ارادہ انسانی کو قوی کرنا اور مزاج انسانی میں اعتدال پیدا کرنا روزے کہ اہم فوائد ہیں سے ہے۔
روزے دار کے لئے ضروری ہے کہ حالت روزہ میں اب و غذا لی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہ جائے اور اسی طرح جنسی لذات سے چشم پوشی کرے اور عملی پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے۔
سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے میں ہے اور ہوا و ہوس اور شہوات و خواہشات اس کے کنڑول میں ہیں۔
حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے۔ وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہیں۔ جب اسے بھوک یا پیاس لگتی ہے وہ ان کے پیچھے جاتاہے۔ وہ درخت جو باغ کی دیوار کی پناہ میں نہر کے کنارے اگے ہوتے ہیں ناز پروردہ ہوتے ہیں۔ یہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کرسکتے ہیں۔ ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اگر انہیں چند دن پانی نہ ملے تو پژمردہ ہوکر خشک ہوجائیں جب کہ وہ درخت جو پتھروں کے در میان پہاڑوں اور بیابانوں میں اگتے ہیں۔ ان کی شاخیں شروع سے سخت طوفانوں، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردی کا مقابلہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور طرح طرح کی محرومیت سے دست و گریباں رہتی ہیں۔ ایسے درخت ہمیشہ مضبوط ، سخت کوش اور سخت جان ہوتے ہیں۔
روزہ بھی انسان کی روح اور جان کے ساتھ یہی عمل کرتاہے۔ یہ وقتی پابندیوں کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتاہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتاہے۔ چونکہ روزہ سرکش طبائع و جذبات پر کنڑول کرتاہے لہذا اس کے ذریعے انسان کے دل پر نور ضباء کی بارش ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں لے جا کھڑا کرتاہے۔ لعلکم تتقون (ہوسکتا ہے تم پرہیزگار بن جاؤ) ان تمام مطالب کی طرف اشارہ ہے۔
مشہور حدیث ہے:
الصوم جنة من النار
روزہ جہنم آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔ ۱
ایک اور حدیث حضرت علی سے مردی ہے کہ پیغمبر اسلام سے پوچھا گیا کہ ہم کون سا کام کریں جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے ۔ آپ نے فرمایا:
الصوم یود وجہہ و الصدقہ تکسر ظہرہ و الحب فی اللہ و المواظبة علی العمل الصالح یقطع دابرہ و الاستغفار یقطع و تینہ
روزہ شیطان کا منہ کالا کردیتاہے۔ راہ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ خدا کے لئے محبت اور دوستی نیز عمل صالح کی پابندی سے اس کی دم کٹ جاتی ہے اور استغفار سے اس کی رگ دل قطع ہوجاتی ہے۔۱
۱ بحار الانوار، ج۹۶، ص۲۵۵
نہج البلاغہ میں عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنین روزے کے بارے میں فرماتے ہیں:
و الصیام ابتلاء لا خلاص الخلق
اللہ تعالی نے روزے کو شریعت میں اس لئے شامل کیاتا کہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔۲
پیغمبر اکرم سے ایک اور حدیث مردی ہے ۔ آپ نے فرمایا:
ان للجنة بابا یدعی الریان لا یدخل منہا الا الصائمون
بہشت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ہے ریان (یعنی۔ سیراب کرنے والا) اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل جنت ہوں گے۔
حضرت صدوق مرحوم نے معافی الاخبار میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھاہے کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازے کا انتخاب اس بناء پرہے کہ روزہ دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوگا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی بھی تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔۳
(!!) روزے کے معاشرتی اثرات: باقی رہا روزے کا اجتماعی اور معاشرتی اثر تو وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ روزہ انسانی معاشرے کے لئے ایک درس مساوات
ہے۔ کیونکہ اس مذہبی فریضے کی انجام دہی سے صاحب ثروت لوگ بھوکوں اور معاشرے کی محروم افراد کی کیفیت کا احساس کرسکیں گے اور دوسری طرف شب و روز کی غذا میں بحث کرکے ان کی مدد کے لئے جلدی کریں گے ۔
البتہ ممکن ہے بھوکے اور محروم لوگوں کی توصیف کرکے خداوند عالم صاحب قدرت لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہو اور اگر یہ معاملہ حسی اور عینی پہلو اختیار کرلے تو اس کا دوسرا اثر ہو۔ روزہ اس اہم اجتماعی موضوع کو حسی رنگ دیتاہے۔ ایک مشہور حدیث میں امام صادق سے منقول ہے کہ ہشام بن حکم نے روزے کی علت اور سبب کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
انما فرض اللہ الصیام یستوی بہ الغنی و الفقیر ذلک ان الغنی لم یکن لیجد مس الجوع فریحم الفقیر و ان الغنی کلما اراد شیئا قدر علیہ فاراد اللہ تعالی ان یسوی بین خلقہ و ان یذیق الغنی مس الجوع و الالم لیرق علی الضعیف و یرحم الجائع۔
روزہ اس لئے واجب ہواہے کہ فقیر اور غنی کے در میان مساوات قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ غنی بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے کیونکہ مالدار عموما جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوتاہے۔ خدا چاہتاہے کہ اس کے بندوں کے در میان مساوات ہو اور مالداروں کو بھی بھوک او درد ورنج کا ذائقہ چکھائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں۔4
(!!!) روزے کے طبی اثرات: طب کی جدید اور قدیم تحقیقات کی روشنی میں امساک دکھانے پینے سے پرہیز ) بہت سی بیماریوں کے علاج کے لئے معجزانہ اثر رکھتاہے جو قابل انکار نہیں۔ شاید ہی کوئی حکیم ہو جس نے اپنی مشروح تالیفات اور تصنیفات میں اس حقیقت کی طرف اشارہ نہ کیا ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہت سی بیماریاں زیادہ کھانے سے پیدا ہوتی ہیں۔
چونکہ مواد اضافی بدن میں جذب نہیں ہوتا جس سے مزاحم اور مجتمع چربیاں پیدا ہوتی ہیں یا یہ چربی اور خون میں اضافی شو گرکا باعث بنتی ہے۔ عضلات کا یہ اضافی مواد در حقیقت بدن میں ایک متعفن بیماری کے جراثیم کی پرورش کے لئے گندگی کا ڈھیر بن جاتاہے۔
ایسے میں ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین حل یہ ہے کہ گندگی کے ان ڈھیروں کو امساک اور روزے کے ذریعے ختم کیاجائے۔ روزہ ان اضافی غلاظتوں اور بدن میں جذب نہ ہونے والے مواد کو جلادیتاہے۔ در حقیقت روزہ بدن کو صفائی شدہ مکان بنادیتاہے۔
علاوہ ازیں روزے سے معدے کو ایک نمایاں آرام ملتاہے اور اس سے ہا ضمے کی مشینری کی سروس ہوجاتی ہے ۔ چونکہ یہ بدن انسانی کی حساس ترین مشینری ہے جو سارا سال کام کرتی رہتی ہے۔ لہذا اس کے لئے ایسا آرام بہت ضروری ہے۔
یہ واضح ہے کہ حکم اسلامی کی روسے روزہ دار کو اجازت نہیں کہ وہ سحری اور افطاری کی غذا میں افراط اور زیادتی سے کام لے ۔ یہ اس لئے ہے تاکہ اس حفظان صحت اور علاج سے مکمل نتیجہ حاصل کیاجاسکے ورنہ ممکن ہے کہ مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ کیا جاسکے۔
ایک روسی دانشور الکسی سوفرین لکھتاہے:
روزہ ان بیماریوں کے علاج کے لئے خاص طور پر مفید ہے:
خون کی کمی، انتڑیوں کی کمزوری، التہاب زائدہ 5
(appendicitis) خارجی و داخلی قدیم پھوڑے ، تپ دق (t.b )، اسکلیر وز، نقرس ۲، استسقار،۳جوڑوں کا درد۴، نورا ستنی، عرق النسار۵، خراز (جلد کا گرنا) امراض چشم، شوگر، امراض جلد، امراض گروہ، امراض جگر اور دیگر بیماریاں۔
امساک اور روزے کے ذریعے علاج صرف مندرجہ بالا بیماریوں سے مخصوص نہیں بلکہ وہ بیماریاں جو بدن انسانی کے اصول سے مربوط ہیں اور جسم کے خلیوں سے چمٹی ہوئی ہیں مثلا سرطان، سفلین اور طاعون کے لئے بھی یہ شفا بخش ہے۔
ایک مشہور حدیث پیغمبر اکرم سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا:
صوموا تصحوا (روزہ رکھو تا کہ صحت مند رہو
پیغمبر اکرم سے ایک اور حدیث مردی ہے جس میں آپ نے فرمایا:
المعدة بیت کل داء و الحمیة راس کل دوائ
معدہ ہر بیماری کا گھر ہے اور امساک وفاقہ اعلی ترین دوا ہے۔


 
۱ بحار الانوار، ج۹۶، ص۲۵۶

۲ نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر ۲۵۲
۳ بحار الانوار، ج۹۶، ص۲۵۲
4- وسائل الشیعہ، ج۷، باب اول، کتاب سوم، ص۳
5-  ایک مرض جس میں اندھی آنت سوج جاتی ہے اور اس میں سوزش ہوتی ہے۔ (مترجم)

روزہ تقوی کا سرچشمہ ہے:  روزہ گذشتہ امتوں میں:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma