واضح گواہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
ادبیات عرب کا عہد زریںدور کا اشارہ کیوں

حروف مقطعہ کی اس تفسیر کا زندہ ثبوت وہ حدیث ہے جو امام سجاد علی بن الحسین علیہما السلام سے منقول ہے ۔ آپ فرماتے ہیں :
کذب قریش والیہود بالقرآن و قالوا ہذا سحر مبین تقولہ فقال تعالی اللہ : الم۔ ذلک الکتاب ای یا محمد ھذا الکتاب الذی انزلتہ الیک الحروف المقطعة التی منھا الف و لام و م وہو بلغتکم تاتوا بمثلہ ان کنتم صادقین
قریش اور یہودیوں نے یہ کہہ کر قرآن کی طرف غلط نسبت دی کہ قرآن جادو ہے یہ خود ساختہ ہے اور اسے خدا سے منسوب کردیا گیا ہے۔ خدا نے انہیں خبردار کیا اور فرمایا الم ذلک الکتاب“ یعنی اے محمد جو کتاب ہم نے آپ پر نازل کی ہے وہ انہی حروف مقطعہ (الف، لام، م) وغیرہ پر مشتمل ہے جو تمہارے زیر استعمال ہے  اور اگر تم سچے ہو تو اس کی مثل پیش کرو(
۱
دوسری شہادت وہ حدیث ہے جو امام علی بن موسی الرضا سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں :
ثم قال : ان اللہ تبارک و تعالی انزل ھذا القرآن بھذہ الحروف التی تید اولھا جمیع العرب ثم قال : قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن۔
خدا وند تعالی نے قرآن کو انہی حروف میں نازل فرمایا جنہیں تمام اہل عرب بولتے ہیں۔ پھر فرمایا : ان سے کہئے کہ اگر انس و جن قرآن کی مثل لانے کے لئے مجتمع ہوجائیں تب بھی وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے(
۲
ایک اور نکتہ جو قرآن کے حروف مقطعہ کے بارے میں اس نظریے کی تائید کرتا ہے یہ ہے کہ قرآن میں
۲۴ مقامات ایسے ہیں جہاں سورتوں کی ابتداء جب ان حروف سے ہوتی ہے تو بلا فاصلہ قرآن اور اس کی عظمت سے متعلق گفتگو شروع ہوجاتی ہے۔ یہ بات خود نشاندہی کرتی ہے کہ حروف مقطعہ اور قرآن میں ربط موجود ہے۔
ایسے چند ایک مقامات یہ ہیں :
۱۔ الر، کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر۔
۲۔ طس، تلک آیات القرآن و کتاب مبین۔
۳۔ الم ، تلک آیات الکتاب الحکیم۔
۴۔ المص، کتاب انزل الیک
ان موارد میں قرآن
ان موارد میںقرآن کی دیگر سورتوں کے آغاز میں بہت سے مواقع پر حروف مقطعہ کے ذکر کے بعد قرآن سے متعلق بات کی گئی ہے اور اس کی عظمت بیان ہوئی ہے۔
اس سورہ (بقرہ) کے آغاز میں بھی حروق مقطعہ کو بیان کرنے کے بعد آسمانی کتب کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ وہی با عظمت کتاب ہے جس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں۔
(ذالک الکتاب لا ریب فیہ)۔
یہ تعبیر ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ خد انے اپنے رسول سے وعدہ کیا ہو کہ وہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے اس پر ایسی کتاب نازل کرے گا جو تمام طالبان حق کے لئے باعث ہدایت ہوگی اور حقیقت کے متلاشیوں کے لئے اس میں کوئی شک و شبہ نہ ہوگا۔ اور اب اس نے اپنے اس وعدے کو ایفاء کیا ہو۔
یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں صرف ایک دعوی نہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو کچھ اس قرآن میں ہے وہ خود اپنی حقانیت پر گواہی دیتا ہے۔ گویا عطار کے صندوقچہ کی طرح ہے،خاموش ہے مگر اپنا کمال دکھا رہا ہے۔
دوسرے لفظوں میں اس طرح سے آثار صدق و عظمت، نظم و استحکام، معانی کی گہرائی، الفاظ و تعبیرات کی مٹھاس اور فصاحت اس میں نمایاں ہے کہ ہر قسم کا وسوسہ اور شک دور ہوتا چلا جاتا ہے اور آنجا کہ عیاں است چہ حاجت بیان است“ کا مصداق ہے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ رفتار زمانہ نہ فقط اس شگفتگی و تازگی کو کم نہیں کرسکی بلکہ علوم کی پیش رفت اور اسرار کائنات کے آشکارا ہونے سے اس کے حقایق روشن تر ہوتے جارہے ہیں اور علم جتنا مائل بہ کمال ہے اس کی آیات زیادہ واضح ہوتی جارہی ہیں یہ دعوی ہی نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جس سے ہم انشاء اللہ اسی تفسیر میںآگا ہو ہوں گے۔
 


 
۱۔ تفسیر برہان ، جلد اول، ص ۵۴۔
۲۔ توحید صدوق، ص۱۶۲، طبع ۱۳۷۵ھ۔
ادبیات عرب کا عہد زریںدور کا اشارہ کیوں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma