۵۔ قلب و بصر صیغہ جمع اور سمع مفرد میں کیوں  :

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
۴۔ قرآن میں قلب سے مراد کیا ہے : تیسرا گروہ ۔ منافقین

۵۔ قلب و بصر صیغہ جمع اور سمع مفرد میں کیوں  : زیر مطالعہ آیت میں اور بہت سی آیات قرآنی کی طرح قلب و بصر صورت جمع(قلوب و ابصار) آئے ہیں جب کہ سمع قرآن میں ہر جگہ مفرد کی صورت میں ذکر ہوا ہے تو اس فرق میں کوئی نکتہ ہونا چاہئے۔
بات یہ ہے کہ لفظ سمع قرآن مجید میں ہر جگہ مفرد آیا ہے اور کہیں بھی جمع (اسماع نہیں آیا لیکن قلب و بصر کبھی جمع کی صورت میں جیسا کہ زیر نظر آیت میں اور کبھی بصورت مفرد جیسے سورہ ٴ جاثیہ آیہ
۲۲ اور سورہ اعراف آیہ ۴۳ میںآی ہے :
و ختم علی سمعہ و قلبہ و جعل علی بصرہ غشاوة (جاثیہ،
۲۳
عالم بزرگوار مرحوم شیخ طوسی تفسیر تبیان میں ایک مشہور ادیب کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
ممکن ہے اسمع کے مفرد آنے کی ان دو میں سے ایک وجہ ہو :
۱۔ سمع کبھی تو اسم جمع کے عنوان سے استعمال ہوتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسم جمع میں جمع کے معنی ہوتے ہیں لہذا صیغہ جمع لانے کی ضرورت نہیں۔
۲۔ سمع میں یہ گنجائش ہے کہ وہ مصدری معنی رکھتا ہو اور ہم جانتے ہیں کہ مصدر کم یازیادہ ہو دو پر دلالت ہے لہذا جمع لانے کی ضرورت نہیں۔
 اس کے علاوہ ایک وجہ ذوق و علم کے اختیار سے بھی بیان کی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ ادراکات قلبی اور مشاہدات چشم ان امور کی نسبت زیادہ ہیں جو سماعت میں آتے ہیں اس اختلاف کی بناء پر قلوب و ابصار جمع کی شکل میں آیا ہے لیکن سمع مفرد کی صورت میں۔
ماڈرن فزکس کے مطابق امواج صوتی جو قابل سماعت ہیں نسبتا تعداد میں محدود ہیں اور وہ چند ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ امواج نور و رنگ جو قابل روئت ہیں کئی ملین سے زیادہ ہیں ( یہ بات غور طلب ہے)۔
 
وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا ہُمْ بِمُؤْمِنِینَ (۸)
 یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ آنفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ (۹)
فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ آلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ (۱۰)
 وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْآرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (۱۱)
 آلاَإِنَّہُمْ ہُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ (۱۲)
 وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا آنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَہَاءُ آلاَإِنَّہُمْ ہُمْ السُّفَہَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ (۱۳)
 وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِہِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ (۱۴)
اللهُ یَسْتَہْزِءُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ (۱۵)
 آوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْہُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُہُمْ وَمَا کَانُوا مُہْتَدِینَ (۱۶)
ترجمہ
۸۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم خدا اور روز قیامت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں۔
۹۔ وہ چاہتے ہیں کہ خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں مگر وہ اس طرح اپنے سوا کسی کو فریب نہیں دیتے لیکن وہ اس کا شعور نہیںرکھتے۔
۱۰۔ ان کے دلوں میں ایک میں ایک طرح کی بیماری ہے اور خدا کی طرف سے اس بیمار کو بڑھا دیا جاتا ہے اور ان کی کذب بیانیوں کی وجہ سے درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے۔
۱۱۔ جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
۱۲۔ آگاہ رہو یہ سب مفسدین ہیں لیکن اپنے آپ کو مفسدنہیں سمجھتے۔
۱۳۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کیاہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں۔جان لو کہ یہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے ہیں۔
۱۴۔ اور جب ایماندار لوگوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لا چکے ہیں لیکن جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں (ان سے تو) ہم تمسخر کرتے ہیں۔
۱۵۔ خدا وند عالم ان سے استہزا کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی میں رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں۔
۱۶۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی ہے حالانکہ یہ تجارت ان کے لئے نفع مند نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں۔
 

 

۴۔ قرآن میں قلب سے مراد کیا ہے : تیسرا گروہ ۔ منافقین
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma