شبہٴ آ کل وماٴکول

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
جب شام چلے آئے تھے۔یوں لگتا ہےانفاق۔طبقاتی تفاوت کا ایک حل


مردوں کے زندہ ہونے کامنظر مشاہدہ کر نے کاتقاضا حضرت ابراہیم نے جس وجہ سے کیا تھا اس کی تفصیل بیان ہو چکی ہے اور وہ تھامردہ جانور کا د ریا کے کنا رے پڑا ہو نے کاواقعہ جسے جا نور کھا رہے تھے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے ک حضرت ابراہیم کا تقاضا زیادہ تر یہ تھا کہ ایک جانور کا بدن دوسرے جانو رکا جزء بننے کے بعد اپنی اصلی صورت میں کیسے پلٹ سکتا ہے ۔علم عقائد میں اسی بحث کو ”شبہ“آکل ماٴکول کہا جا تا ہے ۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت میں خدا انسان کو اسی ما دی جسم کے ساتھ پلٹائے گا ۔ اصطلاحی الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ جسم اور روح دونوں پلٹ آئیں گے ۔
اس صورت میں یہ اشکال سامنے آتا ہے کہ اگر ایک انسا ن کا بدن خاک ہو جا ئے اور درختوں کی جڑوں کے ذریعہ کسی سبزی اور پھل کا جزء بن جا ئے پھر کوئی دوسرا انسان اسے کھا لے اور اب یہ ا س کے بدن کاجزء بن جا ئے یا مثال کے طور پر قحط سالی میں ایک انسا ن دوسرے انسا ن کا گوشت کھا لے تو میدان حشر میں کھائے ہوئے اجزاء ان دونوں میں سے کس کے بدن کا جزء بنیں گے اگر پہلے بدن کا جزء بنیں تو دوسرا بدن ناقص اور دوسرے کا بنیں تو پہلا جزء ناقص رہ جا ئے گا ۔
اس کا جواب یہ ہے ۔
فلاسفہ اور علم عقائد کے علما ء نے اس قدیم اعتراض کے مختلف جواب دیئے ہیں ، یہا ں سب کے بارے میں گفتگو کر نا ضروری نہیں ۔بعض علماء ایسے بھی ہیں جو قابل اطمینا ن جواب نہیں دے سکے اس لئے انہیں معاد جسما نی سے مربوط آیا ت کی تو جیہ وتاٴ ویل کر نا پڑی اور انہوں نے انسا ن کی شخصیت کو روح اور روحانی صفات میں منحصر کردیا ۔ حالانکہ انسانی شخصیت صرف روح پر منحصر نہیں اور نہ ہی معاد جسمانی سے مربوط آیا ت ایسی ہیں کہ ان کی تاویل کی جاسکے بلکہ جیسا کہ ہم کہ چکے ہیں وہ کاملا صریح آیات ہیں ۔
بعض لوگ ایک ایسی معاد کے بھی قائل ہیںجو ظاہراََجسمانی ہے لیکن معاد روحانی سے اس کا کوئی خاص فرق نہیں ۔لیکن ہم یہا ں قرآنی آیا ت کے حوالے سے ایک ایساواضح راستہ اختیا ر کریں گے جو دور حاضر کے علوم کی نظر میں بھی صحیح ہے البتہ اس کی وضاحت کے لئے چند پہلووٴں پر غور کی ضروت ہے ۔
۱۔ ہم جانتے ہیں کہ انسا نی بدن کے اجزاء بچپن سے لیکر موت تک بارہا بدلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دماغ کے خلیے اگرچہ تعداد میں کم یا ز یادہ نہیں ہو تے پھر بھی اجزاء کے لحاظ سے بدل جا تے ہیں کیو نکہ وہ ایک طرف سے وہ غذاحاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی تحلیل ہوتی رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک مکمل تبدیلی واقع ہو جا تی ہے ۔
خلاصہ یہ کہ دس سال سے کم عر صے میں انسانی بدن کے گذشتہ ذرات میں سے کچھ باقی نہیں ر ہ جا تا لیکن توجہ رہے کہ پہلے ذرات جب موت کی وادی کی طرف روانہ ہوتے ہیںاپنے تمام خواص اورآثار نئے اور تازہ خلیوں کے سپرد کرجا تے ہیں یہی وجہ ہے کہ انسانی جسم کی تمام خصوصیات رنگ ،شکل اور قیافہ سے لے کر دیگر جسمانی کیفیات تک زمانہ گزرنے کے باوجوداپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں اور اس کی و جہ یہی ہے کہ کہ پرانی صفات نئے خلیوں میں منتقل ہو جاتی ہیں (غورر کیجئے گا )
اس بنا ء پر ہر انسان کے بدن کے آخری اجزاء جو موت کے بعد خاک میں تبدیل ہوجا تے ہیں وہ سب اس صفات کے حامل ہوتے ہیں جو اس نے پوری عمر میں کسب کئے ہیں اور یہ صفات انسانی جسم کی تمام عمر کی سرگذشت کی بولتی ہوئی تاریخ ہوتی ہیں ۔
۲۔یہ صحیح ہے کہ انسانی شخصیت کی بنیاد روح سے پڑتی ہے لیکن توجہ رہناچاہیئے کہ روح کی پرورش جسم کے ساتھ ہوتی ہے اور جسم ہی ساتھ ہی روح تکامل و ارتقاکی منزل حاصل ہو تی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے متقابل تاثیر رکھتے ہیں ۔اسی لئے جیسے دوجسم تمام جہات سے ایک دوسرے سے شباہت نہیں رکھتے ،دوروحیں بھی تمام پہلووٴں سے ایک دوسرے سے مشابہ نہیں ہوتی ۔
اسی بنا ء پر کوئی روح اس جسم کے بغیر مکمل اور وسیع مفاہمت اور کارکردگی باقی نہیں رکھ سکتی جس کے ساتھ اس نے پرور ش پائی ہو اورتکامل وارتقاء حاصل کیاہو لہٰذاضروری ہے کہ قیا مت میں وہی سابق جسم لوٹ آئے تاکہ اس سے وابستہ ہو کر روح عالی تر مرحلے میں نئے سرے سے اپنی مغالیت کاآغاز کرے اور اپنے انجام دیے ہوئے نتائج سے بہرہ مند ہو۔
۳۔انسانی بدن کا ہر ذرہ اس کے تمام مشخصات جسمی کا حامل ہو تا ہے ۔یعنی ا گر واقعا ہمبدن کے ہر خلیے ) cell ( کی پرورش کرکے اسے ایک مکمل انسان بنالیں تو وہ انسا ن اس شخص کی تمام صفات کاحامل ہو گا جس کا جزء لیا گیا ہے (یہ امر بھی قابل غور ہے )۔
پہلے دن انسان ایک خلیے سے زیادہ تھا ۔پہلے نطفہ کا خلیہ تھ ا۔ اسی میں انسا ن کی تمام صفات موجو د تھیں ۔ تدریجا وہ تقسیم ہو اور دو خلیے بن گئے پھر دو سے چار ہوئے اور رفتہ رفتہ انسانی بدن کے تمام خلیے وجود میں آگئے ۔ اسی بنا ء پر انسانی جسم کے تمام خلیے پہلے خلیے کی طرح پرورش ہو تو ہر ایک لحاظ سے ایک پورا انسان ہو گا جو بعینہ پہلے خلیے سے وجود میں آنے والے انسان کی سی صفات کا حامل ہوگا ۔
ان مندرجہ بالا تین مقدما ت کو سامنے رکھتے ہو ئے اب ہم اصل اعتراض کا جواب پیش کرسکتے ہیں ۔
آیا ت قرآنی صراحت سے کہتی ہیں کہ ٓاخری ذرات جو مو ت کے وقت انسا نی بدن میں ہو تے ہیں ۔ قیامت کے دن انسان انہیں کے ساتھ اٹھا یا جائےگا۔(۱)
اس بناء پر اگر کسی دوسرے انسا ن نے کسی کا گوشت کھایا ہو تو وہ اجزاء اس کے بدن سے خارج ہوکر اصلی بدن میں پلٹ آئیں گے ۔اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ پھر دوسرے کابدن توضرور ناقص ہو جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ناقص نہیں ہوگا بلکہ چھوٹا ہو جا ئے گاکیونکہ اس کے اجزاء بد ن سار ے جسم میں پھیلے ہو ئے ہیں اب جب وہ اس سے لے لیے جا ئیں گے تو اسی نسبت سے دوسرا بدن مجموعی طور پر لاغر ہوجا ئے گا مثلا َایک انسا ن کا وزن ساٹھ کلو ہے ۔اس میں سے چالیس کلو دوسرے کے بدن کا حصہ تھاوہ لے لیا گیاتو باقی بیس کلو کاچھوٹا سا بدن رہ جائے گا ۔
لیکن سوال یہ پیداہو تا ہے کہ اس طرح کوئی مشکل تو پیدا نہیں ہوگی جواب یہ ہے کہ یقیناََ نہیں ہوگی کیونکہ یہ چھوٹاسا بدن بلا کم وکاست دوسرے شخص کی تمام صفات کا حامل ہے روز قیامت ایک چھوٹے بچے کی طرح اس کی پرورش ہوگی اور وہ بڑا ہوکر مکمل انسان کی شکل میں محشور ہوگا حشرونشر کے موقع پر ایسی پرورش وتکامل میں عقلی اور نقلی طور پر کوئی اشکال نہیں ۔یہ پرورش محشور ہو تے وقت فوری ہوگی یا تدریجی ۔۔۔یہ ہمارے سامنے وا ضح نہیں ہے لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ جو صورت بھی ہو اس سے کوئی اعتراض پیدا نہیںہوسکتا اور دونوں صورتوں میں مسئلہ حل شدہ ہے ۔
ایک سوال اب یہاں باقی رہ جا تاہے وہ یہ کہ اگر کسی شخص کا سارا جسم دوسرے کے اجزاء سے تشکیل پا یا ہو تو اس صورت میں کیا بنے گا ۔
اس سوال کاجواب بھی واضح ہے کہ اصولی طور پر ایسا ہو نا محال ہے کیونکیہ مسئلہ ماٴکو ل وآکل کی بنیاد یہ ہے کہ ایک بدن پہلے موجود ہو اور وہ دوسرے بدن سے کھائے اور یو ں پرورش پائے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بدن کے تمام اجزاء دوسرے بدن سے پا ئیں ۔ پہلے ایک بدن فرض کرنا ہو گا اس طرح دوسرے بدن کا جزء بنے گا نہ کہ کل (غور کیجئے گا)۔
ہم نے جو کچھ کہا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے بدن سے معاد جسمانی کے مسئلے پر کوئی اعتراض پیدا نہیں ہو تااور جن آیا ت میں اس مفہوم کی صراحت کی گئی ہے ، ان کی کسی توجیہ کی کوئی ضرورت نہیں ۔
۲۶۱۔مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبة انبتت سبع سنابل فی کل سنبلة مائة حبة واللہ یضاعف لمن یشاء واللہ واسع علیم
ترجمہ
۲۶۱۔جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کر تے ہیں وہ اس بیج کی مانند ہیں جس کے سا ت خوشے نکلیں ااور ہر خوشے میں سو دانے ہوںاور خدا جس کے لئے چاہتاہے (اور جو لیا قت واہلیت رکھتا ہو )دوگنا یا کئی گنا کردیتا ہے اور خد ا(قدرت اور رحمت کے لحاظ سے )وسیع اور (تمام چیزوںسے )آگاہ ودانا ہے ۔
تفسیر


 (۱) ان آیات کا مطالعہ کیجئے جن میں فرمایا گیا ہے کہ لوگ اپنی قبروںسے ز ندہ ہو ںگے ۔
جب شام چلے آئے تھے۔یوں لگتا ہےانفاق۔طبقاتی تفاوت کا ایک حل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma