یہودیوں نے ان زحمتوں اور مشکلوں کے با وجود

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
فباء بغضب علی غضب:  (قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا) کا مفہوم:

گذشتہ آیات کی تفسیر میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہودیوں نے ان زحمتوں اور مشکلوں کے با وجود جو انہوں نے تورات کے پیغمبر موعود تک پہنچنے کے لئے جھیلیں۔ اب حسد کی وجہ سے یا اس بناء پر کہ یہ پیغمبر بنی اسرائیل میں سے نہیں ہے یا اس لئے کہ ان کے ذاتی فائدے خطرے میں پڑ جائیں گے یا پھر اور وجوہات کے باعث اس کی اطاعت اور اس پر ایمان لانے سے منہ پھیر لیا۔

زیر بحث آیات میں سے پہلی میں یہودیوں کے اس تعصب نسلی کی طرف اشارہ کیا گیاہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ فرمایا: جس وقت ان سے کہاجائے کہ جو کچھ خدانے نازل فرمایا ہے اس پر ایمان لے آؤ کہتے ہیں ہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے (نہ کہ دوسری قوموں پر) اور اس کے علاوہ سے کفر اختیار کریں گے ( و اذا قیل لہم امنوا بما انزل اللہ قالوا نومن بما انزل علینا و یکفرون بما ورا ء

وہ انجیل پرایمان لائے ہیں  قرآن پر بلکہ وہ فقط نسلی امتیاز اور اپنے ذاتی فائدے نظر میں رکھے ہوئے ہیں جب کہ قرآن جو محمد پر نازل ہوا ہے وہ حق ہے اور ان نشانیوں اور علامتوں کے مطابق ہے جو پیغمبر موعود کے بار  ے میں ہیں وہ اپنی کتاب میں پڑھ چکے ہیں (و ہو الحق مصدقا لما معہم

اس کے بعد قرآن ان کے جھوٹ سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتاہے: اگر تمہارے ایمان نہ لانے کا بہا نہ یہ ہے کہ محمد تم میں سے نہیں ہے تو پھر گذشتہ زمانے میں اپنے انبیاء پر ایمان کیوں نہیں لائے ہو اور کیوں انہیں قتل کرتے رہے ہو اگر سچ کہتے ہو اور ایمان دار ہو ( قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ اٴَنْبِیَاءَ اللهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِین) ۔

اگر وہ سچے دل سے ایمان لائے تو خدا کے عظیم انبیاء کو قتل نہ کرتے کیونکہ تورات تو انسانی قتل کو بہت بڑا گناہ قرار دیتی ہے۔

علاوہ از یں خود یہ کہنا کہ ہم تو صرف ان قوانین و احکام پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوتے ہوں، در اصل اصول توحید اور شرک کا مقابلہ کرنے کے مفہوم سے واضح کجروی ہے۔ یہ ایک طرح کی خود خواہی اور خود پرستی ہے شخصی صورت میں ہو یا نسلی شکل میں۔ توحید اس لئے ہے کہ ایسے خیالات کو وجود انسانی میں سے جڑسے اکھاڑ پھینکے تا کہ انسان خدا کے قوانین کو صرف اس لئے قبول کرے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اگر خدائی احکامات صرف اس شرط پرقبول کئے جائیں کہ وہ خود ہم پر نازل ہوں تو حقیقت میں یہ شرک ہے نہ کہ ایمان اور یہ کفر ہے کہ اسلام اور اس طرح احکامات ، قبول کرنا ہرگز ایمان کی دلیل نہیں ہے۔ اسی لئے تو مندرجہ بالا آیت میں ہے: وَإِذَا قِیلَ لَہُمْ آمِنُوا بِمَا اٴَنزَلَ الله۔ یعنی جب ان سے کہاجاتا ہے کہ جو کچھ خدانے نازل فرمایاہے اس پر ایمان لے آو۔ اس آیت میں نہ محمد کا نام ہے نہ موسی و عیسی کا۔

ان کے کذب کو ظاہر کرنے کیلئے قرآن صرف اسی بات پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ بعد کی آیت میں ان کے خلاف ایک اور سند پیش کرتاہے۔ قرآن کہتاہے:  موسی نے تمام معجزات و دلائل تمہارے سامنے پیش کئے لیکن تم نے اس کے بعد بچھڑے کو منتخب کیا اور اس کام کی وجہ سے تم ظالم و ستم گار ٹھہرے  (وَلَقَدْ جَائَکُمْ مُوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہِ وَاٴَنْتُمْ ظَالِمُونَ

اگر تم سچ کہتے ہو کہ تم اپنے پیغمبر پر ایمان رکھتے ہو تو پھر یہ بچھڑے کی پرستش اور وہ بھی توحید پر واضح دلائل کے بعد کیاہے۔ یہ کیسا ایمان ہے جو صرف موسی کے او جھل ہونے اور کوہ طور پر جانے سے تمہارے دلوں سے زائل ہوگیا اور کفرنے ایمان کی جگہ اور بچھڑے نے توحید کا مقام حاصل کرلیا۔ بے شک اس کام سے تم نے اپنے اوپر، معاشرے پر اور آئندہ نسلوں پر ظلم کیاہے۔

زیر بحث تیسری آیت میں ان کے دعوی کے بطلان پر ایک اور سند پیش کی گئی ہے اس ضمن میں کوہ طور کے عہد و پیمان کا ذکر کیاگیاہے ۔ فرمایا: ہم نے تم سے پیمان لیا اور کوہ طور کو تمہارے سروں پر بلند کیا اور تم سے کہا کہ جو حکم ہم تمہیں دیں اسے مضبوطی سے تھامے رہو اور صحیح طور سے سنو لیکن تم نے کہا ہم نے سن کر اس کی مخالفت کی (وَإِذْ اٴَخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا

بے شک ان کے دلوں کی بچھڑے کی محبت سے آبیاری ہوئی اور کفرنے ان پر غلبہ حاصل کرلیا ( وَاٴُشْرِبُوا فِی قُلُوبِہِمْ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِم

شرک اور دنیا پرستی نے جس کی مثال سامری کے بنائے سونے کے بچھڑے  سے ان کی محبت ہے، ان کے تار و پود میں اثر و نفوذ پیدا کرلیا تھا اور ان کے سارے وجود میں اس کی جڑیں پہنچ گئی تھیں۔ اسی بناء پر وہ خدا کو بھول گئے تھے۔

عجیب مسخرہ پن ہے یہ کیسا ایمان ہے جو خدا کے پیغمبروں کو قتل کرنے کی اجازت دیتاہے جو بت پرستی اور بچھڑے کی پرستش کو بھی رواجانتا ہے اور خدا سے باندھے ہوئے محکم میثاقوں کو طاق کردیتاہے۔

اگر تم مومن ہوتو تمہارا ایمان تمہیں کیسے برے احکام دیتاہے (قُلْ بِئْسَمَا یَاٴْمُرُکُمْ بِہِ إِیمَانُکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ

فباء بغضب علی غضب:  (قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا) کا مفہوم:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma