حقائق چھپانے والوں کی شدید مذمت

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
 خدا شاکر ہے کا مفہوم: حق کو چھپانے کے نقصانات:

ویسے تو روئے سخن علمائے یہود کی طرف ہے لیکن اس سے آیت کاکلی اور عمومی مفہوم محدود نہیں ہوتا اور یہ سب حقائق چھپانے والوں کے لئے عام ہے۔
 یہ آیت شریفہ حقائق چھپانے والوں کی شدید مذمت اور سرزنش کرتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: جو لوگ واضح دلائل اور ذرائع ہدایت کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے کتاب الہی کے ذریعے نازل کیاہے اور جو ان لوگوں کے سامنے ہیں ان پر خدا لعنت بھیجتاہے اور خدا ہی نہیں بلکہ تمام لعنت کرنے والے انہیں لعنت کرتے ہیں (إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلْنَا مِنْ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اٴُوْلَئِکَ یَلْعَنُہُمْ اللهُ وَیَلْعَنُہُمْ اللاَّعِنُونَ
 یہ آیت بڑی عمدگی سے واضح کرتی ہے کہ خدا کے تمام بندے اور فرشتے اس کام سے بیزار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حق کو چھپانا ایسا عمل ہے جو حق کے تمام طرف داروں کے غم و غصے کو ابھارتا ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کیا خیانت ہوگی کہ علماء آیات خدا کو اپنے شخصی منافع کے لئے چھپائیں اور لوگوں کو گمراہ کریں جب کہ یہ ان کے پاس خدا کی امانت ہیں۔
 من بعد ما بیناہ للناس فی الکتاب اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے افراد در حقیقت زحمات انبیاء اور مردان خدا کی فداکاریوں کو برباد کرتے ہیں جو وہ آیات الہی کی نشر و اشاعت اور تبلیغ کے لئے انجام دیتے ہیں اور یہ بہت بڑا گناہ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔
 لفظ (یلعن) آیت میں دو مرتبہ آیاہے۔ یہ فعل مضارع ہے اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے فعل مضارع میں استمرار کا معنی شامل ہے۔ اس بناء پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا اور مقام لعنت کرنے والے ہمیشہ ایسے لوگوں پر لعنت اور نفرین کرتے رہتے ہیں جو حقائق کو چھپاتے ہیں اور یہ شدیدترین سزاہے جو کسی انسان کو دی جاسکتی ہے۔
 (بینات) اور (ہدی) کا ایک وسیع مفہوم ہے جس سے مراد وہ تمام روشن دلائل اور ہدایت کے وسائل ہیں جو لوگوں کی آگاہی ، بیداری اور نجات کا سبب ہیں۔
 قرآن کتاب ہدایت ہے لہذا یہ کبھی لوگوں کے لئے امید اوربازگشت کا دریچہ بند نہیں کرتی۔ اس لئے بعد کی آیت میں راہ نجات اور گناہوں کی تلافی کا بھی ذکر کیاگیاہے اور اسے شدید سزا کے مقابلے میں یوں بیان کیاگیاہے: مگر وہ جو توبہ کریں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں، اپنی برائیوں کی تلافی اور اعمال کی اصلاح کریں اور جو حقائق انہوں نے چھپا رکھے تھے لوگوں کے سامنے آشکار کردیں بے شک میں ایسے لوگوں کو بخش دوں گا اور ان کے لئے اپنی اس رحمت کی تجدید کردوں گا جو ان سے منقطع کی جاچکی ہے کیونکہ میں بازگشت کنندہ اور مہربان ہوں (الا الذین تابوا و اصلحوا و بینوا فاولئک اتوب علیہم و انا التواب الرحیم)۔۳
 اگر دیکھا جائے (فاولئک اتوب علیہم) کے بعد (انا التواب الرحیم)کا آنا توبہ کرنے والوں کے لئے پروردگار عالم کی انتہائی محبت اور کمال مہربانی پر دلالت کرتاہے۔ یعنی فرماتاہے: اگر وہ پلٹ آئیں تو میں بھی رحمت کی طرف پلٹ آؤں گا اور اپنی عنایات و نعمات جو ان سے منقطع کرچکاہوں پھر سے انہیں عطا کروں گا۔
 یہ بات قابل توجہ ہے کہ یوں نہیں کہتا کہ تم توبہ کرو تو میں تمہاری تو بہ قبول کرلوں گا بلکہ کہتاہے: تم توبہ کرو اور پلٹ آو تو میں بھی پلٹ آؤں گا۔ ان دونوں جملوں میں جو فرق ہے واضح ہے۔
 علاوہ ازیں (و انا التواب الرحیم) کے ہر لفظ اور انداز میں اتنی مہربانی اور شفقت پائی جاتی ہے کہ یہ مفہوم کسی اور عبادت میں سماہی نہیں سکتاتھا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ (انا)واحد متکلم کی ضمیر ہے جس کا معنی ہے (میں خود) یہ ایسے مقامات پر آتاہے جہاں کہنے والا براہ راست سننے والے سے ربط رکھتاہو۔ خصوصا اگر کوئی بزرگ ہستی یہ کہے کہ (میں خود یہ کام تمہارے لئے کروں گا) بجائے اس کے کہ وہ کہے (ہم اس طرح کریں گے ) تو اس میں بہت فرق ہے۔ پہلے انداز میں جو لطف و کرم ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ لفظ (تواب) بھی مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے بہت زیادہ پلٹ کرآنے والا۔ یہ انداز اس طرح امید کی روح انسان میں پھونک دیتاہے کہ اس کی زندگی کے آسمان سے یاس و ناامیدی کے سارے پردے ہٹ جاتے ہیں اور جب لفظ (رحیم) بھی ساتھ ہو جو پروردگار کی خصوصی رحمت کی طرف اشارہ ہے۔

 خدا شاکر ہے کا مفہوم: حق کو چھپانے کے نقصانات:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma