شائستہ اور مناسب وصیتیں

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
تشویق به عفو  و صیت کا فلسفہ:

گذشتہ آیات میں مجرمین کے بارے میں بعض مسائل بیان کرنے کے بعد ان آیات میں ایک لازمی حکم کے طور پر مالی معاملات میں وصیت کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ فرمایا: تم پر لکھ دیاگیاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آجائے تو اپنے مال و منال کے سلسلے میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں مناسب اور شائستہ وصیت کرے (کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیران الوصیة للوالدین و الاقربین بالمعروف)۔ آیت کے آخر میں مزید فرمایا: یہ پرہیزگاروں کے ذمے ایک حق ہے(حقا علی المتقین
جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکاہے ”کتب علیکم“ ظاہرا وجوب پر دلالت کرتاہے۔ اس لئے وصیت کے بارے میں مختلف تفاسیر بیان کی گئی ہیں۔
بعض اوقات کہاجاتاہے کہ اگر چہ قوانین اسلام کی روسے وصیت ایک عمل مستحب ہے لیکن چونکہ ایسا مستحب ہے جس کی تائید بہت زیادہ ہے لہذا۔” کتب علیکم“کے جملہ سے اس کا حکم بیان کیاگیاہے اس لئے آیت کے آخر میں ”حقا علی المتقین“ آیاہے اگر یہ وجوبی حکم ہوتا تو فرمایا جاتا ”حقا علی المومنین“۔
کچھ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت میراث کے احکام نازل ہونے سے پہلے کی ہے۔ اس وقت اموال کے بارے میں وصیت کرنا واجب تھا۔ تا کہ ورثہ میں اختلاف و نزاع نہ ہو لیکن آیات میراث نازل ہونے کے بعد یہ وجوب منسوخ ہوکر ایک مستحبی حکم کی صورت میں باقی رہ گیا۔
حدیث جو تفسیر عیاشی میں اس آیت کی ذیل میں آئی ہے اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ آیت کا یہ حکم ضرورت کے ان مواقع کے لئے ہو جہاں وصیت کرنا ضروری ہے۔
لیکن ان تمام تفاسیر میں پہلی تفسیر حق و حقیقت کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہاں مال کی جگہ لفظ خیرا استعمال کیاگیاہے ۔ فرمایا کہ اگر کوئی اچھی چیز اپنے ترکے میں چھوڑے تو وصیت کرے۔ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں وہ دولت و ثروت جو شرعی طریقے سے حاصل کی جائے اور معاشرے کے فائدے کے لئے اچھی راہ پر صرف کی جائے خیر و برکت ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے غلط افکار پر خط بطلان کھینچتی ہے جو مال و دولت ہی کو بری چیز سمجھتے ہیں۔ اسلام ان کجرو زاہدوں سے بیزار ہے جو روح اسلام کو نہیں سمجھ سکے اور وہ زہد کو فقر و فاقہ کا دوسرا نام سمجھے ہوئے ہیں اور ان کے افکار اسلامی معاشرے میں جمود اور ذخیرہ اندوزوں کے سر اٹھا نے کا سبب بنتے ہیں۔
ضمنی طور پر یہ تعبیر اس ثروت و دولت کے مشروع اور جائز ہونے کی طرف لطیف اشارہ ہے جس کے بارے میں وصیت کا حکم دیاگیاہے ورنہ انسان کا چھوڑا ہوا غیر مشروع ناجائز مال تو خیر نہیں بلکہ شر ہی شر ہے۔
بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ وہ اموال کافی تعداد میں ہوں ورنہ مختصر مال تو وصیت کا محتاج نہیں۔ دوسرے لفظوں میں مختصر مال تو کوئی ایسی چیز نہیں کہ انسان چاہے کہ اس کا تیسرا حصہ وصیت کے ذریعے الگ کردیاجائے۔۱
ضمنا ” اذا حضر احدکم الموت“(جب تم میں سے کسی کے پاس موت آ پہنچے) وصیت کے لئے فرصت کے آخری لمحات کو بیان کرتاہے اگر تاخیر ہوجائے تو موقع جاتارہے گا ورنہ کوئی مضائقہ نہیں کہ انسان پہلے سے احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا وصیت نامہ تیار کرے بلکہ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ عمل انتہائی مستحسن ہے۔
یہ انتہائی کوتاہ فکری ہے کہ انسان خیالی کرے کہ وصیت کرنا فال بدہے اور اپنی موت کو سامنے لانے کے مترادف ہے بلکہ وصیت تو ایک دور اندیشی اور ناقابل انکار حقیقت کی پہچان ہے اور اگر یہ طول عمر کا سبب نہ بنے تو عمر میں کمی کا تو ہرگز سبب نہیں ہے۔
زیر نظر آیت میں وصیت کو ”بالمعروف“ سے مقید کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ وصیت ہر لحاظ سے عقل مندانہ ہو، لیکن معروف کا معنی ہے عقل و خرد کی پہچانی ہوئی (عرف عقلا)۔
جس شخص کے لئے وصیت کی جارہی ہو اس کے لئے مقدار رکے لحاظ سے اور دیگر جہات سے ایسی ہو کہ عقلا اسے مدبرانہ سمجھیں نہ یہ کہ وہ تفریق اور نزاع کا باعث بن جائے۔
جب وصیت تمام مذکورہ صفات کی جامع ہو تو وہ ہر لحاظ سے محترم اور مقدس ہوگی اور اس میں کسی طرح کا تغیر و تبدل حرام ہے۔ اسی لئے بعد والی آیت میں فرمایا گیاہے: جو کوئی وصیت سننے کے بعد اس میں تبدیلی کرے اس کا گناہ تبدیلی کرنے والے کے سر ہے (فمن بدلہ بعد ما سمعہ فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ) اور اگر ان کا گمان ہے کہ خدا ان کی سازشوں اور مخفی کارروائیوں سے بے خبر ہے تو وہ سخت اشتباہ میں ہیں کیونکہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (ان اللہ سمیع علیم ممکن ہے یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ وصی (وہ شخص جووصیت کرنے والے کی موت کے بعد وصیتوں پر عملدر آمد کے لئے ذمے دارہے) کی خلاف ورزی کبھی وصیت کرنے والے کے اجر و ثواب کو ختم نہیں کرسکتی۔ وہ اپنا اجر پاچکا ہے ۔ گناہ کا طوق فقط وصی کی گردن کے لئے ہے جس نے وصیت کی مقدار ، کیفیت یا اصلی وصیت میں تبدیلی کی ہے۔
یہ احتمال بھی ہے کہ مقصدیہ ہو کہ اگر وصی کی خلاف ورزی کی وجہ سے میت کا مال ایسے افراد کودے دیاجائے جو اس کے مستحق نہیں اور وہ اس سے بے خبر بھی ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ گناہ صرف وصی کو ہوگا جس نے دانستہ طور پر یہ غلط کام انجام دیاہے۔ توجہ رہے کہ یہ دونوں تفاسیر ایک دوسرے سے متضاد نہیں اور ممکن ہے آیت ان دونوں مفاہیم کے لئے ہو۔
اب یہ حکم اسلامی واضح ہوگیا کہ وصیتوں میں ہر طرح کا تغیر و تبدل جس صورت میں ہو اور جس قدر ہو گناہ ہے۔ لیکن ہر قانون میں کچھ استثنائی پہلو ہوتے ہیں۔ لہذا زیر نظر آخری آیت میں فرمایاگیاہے: جب وصی کو وصیت کرنے والے میں انحراف اور کجروی کا اندیشہ ہو، یہ انحراف چاہے بے خبری سے ہو یا جان بوجھ کر آگاہی کے با وصف ہو اور وہ اس کی اصلاح کرے تو وہ گنہ گار نہ ہوگا اور وصیت کی تبدیلی کا قانون اس پر لا گونہ ہوگا۔ خدا بخشنے والا مہربان ہے (فمن خاف من قوص جنفا او اثما فاصلح بینہم فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم
اس بناء پر استثناء صرف ان مواقع کے لئے ہے جہاں وصیت شائستہ و مناسب نہ ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں وصی تغیر کا حق رکھتاہے۔ اگر وصیت کرنے والا زندہ ہے تو اپنا نقطہ نظر اس کے گوش گزار کرے تا کہ وہ خود تبدیلی کردے اور اگر وہ مرگیا ہو تو خود یہ تبدیلی کرے اور تبدیلی کا یہ اختیار مندرجہ ذیل مواقع کے لئے منحصر ہے۔
۱۔ اگر وصیت کل ترکے کے ایک تہائی سے زیادہ ہو کیونکہ رسول اکرم اور اہل بیت سے بہت سی روایات میں منقول ہے کہ انسان ایک تہائی تک کے مال کی وصیت کرنے کا مجاز ہے اور اس سے زیادہ ممنوع ہے۔ ہمارے فقہا نے بھی فقہی کتب میں یہی فتوی دیاہے۔2

اس بناء پر جن ناواقف لوگوں کا یہ معمول ہے کہ وہ تمام اموال وصیت کے ذریعے تقسیم کردیتے ہیں کسی طرح بھی قوانین اسلام کے روسے صحیح نہیں اور وصی پر لازم ہے کہ وہ اس کی اصلاح کرے اور ایک تہائی سے زیادہ اس طرح سے تقسیم نہ کرے۔
۲۔ اگر وصیت ظلم، گناہ اور غلط کام سے متعلق ہو۔ مثلا کوئی وصیت کرے کہ اس کے مال کا کچھ حصہ مراکز فساد کو وسیع کرنے میں صرف کیاجائے اور اسی طرح اگر وہ وصیت کسی ترک واجب کا سبب بنے۔
۳۔ اگر وصیت پر عمل درآمد، نزاع، فساد اور خون ریزی کا سبب ہو تو یہاں حاکم شرع کے حکم سے اصلاح ہوسکتی ہے۔
جنف (بروزن کنف) کا معنی ہے حق سے انحراف اور باطل کے طرف میلان۔ یہ وصیت کرنے والے کے جاہلانہ انحرافات اور کجرویوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور ”اثم“ گناہ عمد کی طرف اشارہ ہے۔
جملہ ”ان اللہ غفور رحیم“ جو اس آیت کے آخر میں آیاہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر وصی وصیت کرنے والے کے غلط کام کی اصلاح کے لئے اقدام کرے اور راہ حق کو کھول دے تو خدا اس کی خطاسے صرف نظر کرے گا۔



۱ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۱۵۹
 
2- وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۲۶۱ (کتاب احکام الوصایا، باب ۱۰
تشویق به عفو  و صیت کا فلسفہ:
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma