پیغمبران خدا کی عظمت اور بلند مقام کی طرف اشارہ ہے

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
تابوت کیا ہے کیا مختلف مذاہب اختلاف کا سبب ہیں ؟

تِلْک اشارہٴ بعید کے لئے ہے لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کبھی کسی شخص یا چیز کے احترام کے لئے اس کی حیثیت اور مقام کو مد نظر رکھتے ہو ے ٴ اشارہ ٴ بعید استعمال کیاجاتا ہے یہاں بھی ”رسل“سے پہلے ”تلک “پیغمبران خدا کی عظمت اور بلند مقام کی طرف اشارہ ہے
”رسل“ سے مراد یہاں تمام پیغمبران اور مرسلین ہیں یا وہ پیغمبر مراد ہیں جنکا ذکر اسی سورہ کی گذشتہ آیات میں آچکا ہے یا جنکے واقعات کی طرف اشارہ ہو چکا ہے مچلاً ابراہیم  ،موسیٰ  عیسیٰ  ،داوٴد  اور اشموئیل یہ بھی ممنک ہے کہ اس سے مراد وہ تمام رسول جنکے نام قرآن میں اس آیت کے نزول سے پہلے آچکے تھے اس سلسلے سے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن زیادہ تر یہی معلوم ہوتا کہ اس سے تمام پیغمبرمراد ہیں کیونکہ اصطلاحی طور پر لفظ ”الرّسل “ جمع محلی باللام ہے جو عمومیت پر دلالت کرتا ہے لہٰذا سب رسولوں کے لئے ہے
”فَضَّلْنا بَعْضَہُمْ عَلی بَعْضٍ “
یہ جملہ وضاحت کرتا ہے کہ اگر چہ نبوت اور رسالت کے لحاظ سے تمام پیغمبر ایک دوسرے کی مثل و نظیر ہیں لیکن مقام و منزلت میں یکسان نہیں ہیں کیو نکہ انکی ذمہ داریاں مختلف تھیں فداکار تو وہ سب تھے لیکن انکی فداکاری درجات مختلف ہیں اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ان میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی
”منہم من کلّم اللہ موسیٰ تکلیماً“
اس جملے میں پیغمبروں کے بعض فضائیل کی طرف ازارہ کرتے ہوے ٴ فرامایا گیا ہے کہ خدا نے ان سے بعض کے ساتھ گفتگو کی ہے واضحہے کہ اس سے مراد حضرت موسیٰ ہیں چونکہ وہی ایسی شخصیت ہی جو کلیم اللہ کے نام سے مشہور ہیں سور ٴ نساء آیت ۱۶۴میں انکے بارے میں ہے
”وکلّم اللہ موسیٰ تکلیماً“
یہ خذ کرنا بہت بعید ہے کہ اس سے مراد پیغمبر اسلام ہیں اور (سورہ ٴ شوریٰ آیت ۵۱کے قرینے سے )اس تکلم سے مراد وحی ہی ہے
”و رفع بعضہم درجٰت
اس جملے میں بعض پیغمبروں کی درجے اور مرتبے کے اعتبار سے فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے آیت کی ابتدا میں ہیغمبروں کے درجات کے فرق کو بیان کیا گیا ہے اس بات کو سامنے رکھتے ہو ے ٴ کہا جا سکتا ہے کہ زیر نظر جملے سے مراد ایک یا کئی مخسوص افراد ہیں جنکا کامل نمونہ پیغمبر اسلام ہیں کیونکہ آپ کی زات بابرکات ایسی ہے جس کا لایا ہوا دین وائین آخری اور کامل ترین تھا جسکی رسالت کامل ترین دین ی تبلیغ کے لئے ہے اسے خود سب سے برتر ہونا چاہئے اورخصوصاً یہ کہ قرآن انکے بارے میں کہتا ہے
”و جئنا بک ھٰؤلاء شھیداً“
قیامت کے دن ہر پیغمبر اپنی امت پر گواہ ے اور تم تمام پیغمبروں پر گواہ ہو (نساء۴۱)
یہ آیت بھی مذکورہ موقف کی درستی پر دلالت کرتی ہے گذشتہ جملے میں چونکہ حضرت موسیٰ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بعد کا جملہ حضرت عیسیٰ کے مقام و منزلت کی صراحت کرتا ہے ،لہٰذا بحچ کی مناسبت سے یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ جملہ بھی پیغنبر اسلام کی عظمت کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ یہ تینوں پیغمبر عالمی مذاہب کے پیشوا ہیں اور اگر پیغمبر اسلام کا ذکر ان دونوں کے درمیان آیا ہے تو یہ کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے کیونکہ آپ ہی کا دین دیگر ادیان کے لئے حد وسط ہے اور اس میں ہر چیز اعتدال کے ساتھ موجود ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
و کذالک جعلنا کم امّة وسطاً “
اور اس طرح ہم نے تمہیں امت وسط قرار دیا (بقرہ۱۴۳)
ان تمام چیزوں کے باوجود آیت کے آئیندہ جملے نشاندہی کرتے ہیں کہ ”و رفع بعضہم درجٰت “
سے مراد بعض گذشتہ پیغمبر مثلاً حضرت ابراہیم  ،حضرت نوح اور بعض دیگر ہیں کیونکہ بعد میں فرمایا گیا ہے :
”و لو شاء اللہ ما اقتتل الذین من بعدہم “
یعنی : اگر خدا چاہتا تو ان پیغمبروں کی امّتیں ان کے بعد میں آپس میں جنگ و جدال نہ کرتیں ۔
اس جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ جملے سابق پیغمبروں کے بارے میں ہیں
”و اٰتیناہ عیسیٰ ابن مریم البینات و ایّد ناہ بروح القدس “
فرمایا گیا ہے کہ ہم نے عیسیٰ کو واضح نشانیاں دیں مثلاً نا قابل علاج بیماروں کو شفا دینا مردوں کو زندہ کرنا ، اعلیٰ مذہبی معارف اور روح القدس کے ذریعے انہیں تائید و تقویت بخشی
اس بارے میں سورہ ٴ آیت ۸۷ میں بحث ہو چکی ہے کہ روح القدس سے مراد وحی الٰہی پہچانے والے جبرئیل ہیں یا کوئی مخفی معنوی قوّت جو تمام موئمنین میں مختلف درجہ پر موجود ہے
’و لو شاء اللہ ما اقتتل الذین من بعدہم من بعد ما جائتہم البیّنات
یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ پیغمبروں کی عظمت ان پیرو کارو ں کے درمیان اختلاف میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنی کیونکہ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے تکامل و ارتقاء کے لئے ضروری ہے کہ انسان حق و فضیلت کے راستے کو اپنے ارادے سے طے کرے اگر خدا چاہتا تو اس میں کوئی رکاوٹ نہ تھی کہ انسان کو حیوانات کی طرح خاص عزائز و طبائع کے ساتھ پیدا کرتا اور انکے زیر اثر وہ انبیاء کی پیروی کرتا اور صلح صفائی سے رہتا لیکن یہ مسلم ہے کہ ان پیغمبروں کی پیروی کرنا یا صلح و آشتی سے رہنا اور جنگ و جدال سے بچنا فضیلت و فخر کا باعث نہ ہوتا کیو نکہ اس میں جبر و اکراہ کا پہلو پایا جاتا ہے
”ولٰکن اختلفوا فمنھم من اٰمن و منھم من کفر “
اس اختلاف کا سر چشمہ خود لوگ ہی تھے ورنہ انبیاء و مرسلین میں تو کوئی اختلاف نہ تھا ۔ان سب کا تو ایک ہی ہدف اور مقصد تھا ہوا یہ کہ بعض افراد انکی تعلیمات پر ایمان لے اے ٴ اور بعض افرادنے مخالفت کی اور یہ امر اختلافات کا باعث بنا
”ولو شاء اللہ ما اقتتلو اولٰکن اللہ یفعل مایرید “
دوبارہ تاکید کی گئی ہے کہ یہ کام خدا کے کے لئے آسان تھا کہ جبری طور پر اختلافات کو ختم کر دیتا لیکن خدا اپنے ارادے کے مطابق امور انجام دیتا ہے اور خدا کا ارداہ حکمت اور تکامل انسانی سے ہم آہنگ ہے اس نے انسان کو آزاد اور مختار قرار دیا ہے اگر چہ بعض لوگ اس آزادی سے غلط فائیدہ اٹھاتے ہیں

 

تابوت کیا ہے کیا مختلف مذاہب اختلاف کا سبب ہیں ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma