مسئلہ شفاعت کے بارے میں وہابیوں کی

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
تعجب کی بات یہ ہے قرآن ا س آیت میں ایک اور عظیم نعمت کی طرف اشارہ کرتا ہے

مسئلہ شفاعت کے بارے میں وہابیوں کی جو منطق ان کے مذہب کے بانی محمد بن عبد الوہاب کے اقوال کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ وہ شفاعت کے طرفدار مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہوئے دو چیزوں کا سہارا لیتے ہیں ۔
۱ انبیاء اور صلحا کی شفاعت پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کا قیاس زمانہ جہالت کے مشرکین پر کرتے ہیں ۔
۲ قرآن نے غیر خدا کی عبادت و پرستش کی صریح نفی کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کا نام نہ لیں ” فلا تدعو مع اللہ احدا “ (سورہ جن ) اور یہ کہ تقاضائے شفاعت ایک قسم کی عبادت ہے ۔
پہلی بات کے بارے میں کہنا چاہئیے کہ اس قیاس میں وہ بہت بڑے اشتباہ کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ قرآن سے نیک اور صالح انبیاء وملائکہ کے لئے مقام شفاعت ثابت ہے جیسا کہ گذشتہ بحثوں میں گذر چکاہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ اسے اذن الٰہی پر موقوف قرار دیا ہے ۔یہ بات انتہائی غیر منطقی اور مضحکہ خیز ہے کہ خدا نے انہیں یہ مقام تو دیا ہے لیکن ہمیں منع کیا ہے کہ اس حیثیت و مقام کوعمل میں لانے کا مطالبہ کریں وہ اذن خدا ہی سے کیوں نہ ہو ۔
علاوہ از ایں قرآن میں برادران یوسف کا باپ سے رجوع کرنا یا اسی طرح اصحاب پیغمبر کا رجوع اور آپ سے اپنے حق میں استغفار کا مطالبہ کرنا شمار کئے جاچکے ہیں ۔
کیا پیغمبر سے یہ تقاضا کرنا کہ ” اشفع لنا عنداللہ “ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کیجئے ) شفاعت کے روشن و واضح مصادیق میں سے نہیں ہے جیسے حضرت یوسف کے بھائیوں نے کہا تھا ۔
یا ابانا استغفرلنا
اے والد بزرگوار ! ہمارے لئے مغفرت کیجئے) یوسف ۔۹۷)
جس چیز کو قرآن صراحت سے جائز سمجھتا ہے یہ لوگ اسے کیونکر شرک شمار کرتے ہیں اور اس کے معتقد کو نیز اس کے خون اور مال کو مباح سمجھتے ہیں اگر یہ چیز شرک ہے تو حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کیوں منع نہیں کیا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ بت پرستوں اور ان خدا پرستوں میں جو شفاعت باذن اللہ کا اعتقاد رکھتے ہیں کوئی شباہت موجود نہیں ہے کیونکہ بت پرست بتوں کی عبادت کرتے تھے اور انہیں شفیع قرار دیتے تھے جب کہ شفاعت کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں میں مسئلہ عبادت کا تعلق شفعاءء سے بالکل نہیں بلکہ وہ فقط ان سے خدا کے بارے میں شفاعت کی د ر خواست کرتے ہیں۔ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے کہ شفاعت کی درخواست کا مسئلہ عبادت سے کوئی ربط نہیں۔
بت پرست خدائے یگانہ کی پرستش سے وحشت میں تھے اور کہتے تھے :
اجعل الالھة الھا واحد ان ھذا لشییء عجاب
کیا اس نے کئی خداؤں کو ایک خدا قرار دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔( ص، ۵
بت پرست عبادت کے لحا ظ سے بتوں کو خدا کے برار سمجھتے تھے :
تاللہ ان کنا لفی ضلٰل مبین اذیریکم برب العالمین
خدا کی قسم ہم واضح گمراہی میں تھے جب کہ تمہیں رب العالمین کے مساوی سمجھتے تھے (شعراء ۹۷، ۹۸)
جیسے کہ تاریخ واضح گواہی دیتی ہے پت پرست اپنی خلقت اور تقدیر میں بتوں کے عمل دخل کا عقیدہ رکھتے تھے اور اس عمل دخل کی مبدائیت کے قائل تھے جب کہ شفاعت کا اعتقاد رکھنے والے مسلمان یہ امور صرف خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں اور کسی موجود کے لئے بھی تاثیر میں استقلال کے قائل نہیں ہیں۔
اب مسلمانو ں کو بت جیسا قراردینا بہت ہی ظالمانہ اور بعید از عقل ومنطق کام ہے
باقی رہا ددوسرا مطلب تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ”عبادت“کیا ہے ۔اگر عبادت کا مفہوم ”ہر قسم کاخضو ع واحترام کر نا “لیا جا ئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کو ئی شخص کسی دوسرے کے لئے کسی قسم کا خشوع واحترا م نہ کرے ۔ظاہرہے کہ یہ مفہوم کسی کے لئے قابل قبو ل نہیں ہوسکتا ۔
اسی طرح اگر عبادت کی تفسیر ”ہرقسم کی درخواست وتقاضا کرنا “کی جائے تو ہر شخص سے درخواست وتقاضا کر نا شرک وبت پرستی قرار پاجائے حالانکہ یہ بھی عقل ودین کی واضح راہنمائی کے خلاف ہے ۔
لہذا عبادت کا مفہوم ان تمام امور سے الگ اورجدا ہے اور وہ آخری حد کا خضوع اور تواضع ہے جو مطلق تعلق اور وابستگی کے ساتھ ،بغیر کسی قیداور شرط کے۔تسلیم کے عنوان سے ”عابد“کی طرف سے معبو د کے سامنے انجام پذیر ہوتا ہے ۔
اس لفظ کی اصل ” عبد“ہے اورا س کا مفہوم لفظ عبد (بندہ )کی طرف توجہ کرنے سے ہو تا ہے ۔در اصل عبا دت کرنے والااپنی عبادت کے ساتھ نشاندہی کر تا ہے کہ معبود کے سامنے تسلیم محض کے لئے حاضر ہے اور اپنی تقدیر اس کے ساتھ میں سمجھتا ہے ۔یہ وہی مفہو م ہے جو عبادت سے عرف اور شرع میں مراد لیا گیا ہے ۔تو کیا شفعاء سے شفاعت کے سوال میں اس مفہوم ِ عبادت کا کوئی اثر موجو د ہے؟
باقی رہا دعا ا ور غیر خدا کو پکار نا ،جس سے کئی ایک بات میں روکا گیاہے ۔اس میں شک نہیں کہ اسکا مفہوم نہیں کہ کسی کو آوا ز دینے سے منع کیا گیا ہے اور کسی کو اس کے نام سے پکارنا ”یاحسن “یامحمد “کہنا ممنوع ہے یا شرک ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کسی کو پکارنا اور اس سے اس کام کی انجام دہی کی درخواست کرنا جو اس کی قد رت وطاقت میں ہو گناہ اور شرک نہیں کیو نکہ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنا اجتماعی زندگی کا حصہ ہے ۔تمام انبیاء اور آئمہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے ( یہا ں تک کے خود وہابی بھی اسے ممنوع نہیں جانتے)۔
قابل اعتراض صورت ممکن ہے وہی جس پر ابن تیمیہ نے رسالہ ”زیارة القبو ر میں اعتراض کیا ہے :
مطلوب العبد ان کان لا یقد رعلیہ الااللہ فسائلہ من المخلوق مشرک من جنس عباد اللملائکةوالتماثیل ومن اتخذالمسیح وامہ الھین مثل ان یقول لمخلوق حی او میت اغفر ذنبی اوانصر نی علی عدو ی او اشف مریضی ۔۔۔۔۔وان کا مما یقدر علیہ العبد فیجوز طلبہ منہ فی حا ل دون حال فانہ مسئلة المخلوق قد تکون جائزہ وقد تکون منھیا عنھا قال اللہ تعال :فاذافرغت فانصب والٰی ربک فارغب ۔ واوصی النبی (ص)ابن عباس اذا سئلت فاسئل اللہ اذااستعنت فاستعن بااللہ و اوصی طائفة من اصحابہ ان لا یسئل الناس شیئاََوکان سوط احدھم یسقط من کفہ فلا یقول لاحدنا ولنی ایاہ فھٰذاالمنھی عنھا والجائزةطلب دعاالموٴمن لاخیہ۔ ۱

بندے کی اگر خواہش ایسی ہے جس پر خدا کے علا وہ کو ئی قدرت نہیں رکھتا تو ایسی حا جت کومخلوق سے سوال کرنے والامشرک ہے اور وہ ملائکہ ،تماثیل ،حضرت مسیح اور ان کی والد کو خدا سمجھنے والوں میں سے ہے ۔مثلا کسی زند ہ یامردہ مخلوق سے کہنا کہ میرا گناہ بخش دو یا میرے دشمن کے خلاف میری مدد کرو ۔۔۔۔۔اور وہ اگر حاجت ایسی ہے جس پر بندہ قد رت رکھتا ہے تو بعض اواقات اس سے طلب کرنا جائز ہو تا ہے اور بعض اوقا ت ناجائز کیونکہ مخلوق سے کبھی سوال جائز ہوتا ہے ا ور کبھی اس سے روکا گیا ہوتا ہے خد اوندعالم فرماتا ہے :جب آپ فارغ ہو جائیں تو نصب کریں اور اپنے رب کی ہی طرف رغبت کریں ۔نبی اکرم نے ابن عباس کو وصیت کی کہ جب تمہیں سوال کرنا ہو تو خدا سے سوال کرو یاجب اعانت طلب کرنی ہو تو تو خدا سے اعانت طلب کرو اور آپ نے اپنے ایک اصحاب کو وصیت کی تھی کہ وہ لوگوں سے کسی بھی چیز کا سوال نہ کریں ۔لہٰذاان میںسے کسی کا کوڑااس کے ہاتھ سے گرجاتا توکسی سے نہ کہتا کہ مجھے اٹھا کر دے دو تویہ منہی عنہ (وہ ہے جس سے روکاگیا )ہے اور جائز یہ ہے کہ ایک موٴمن اپنے موٴمن بھائی سے دعاکی خواہش کرے۔
اس بناء پر اگر واقعا کوئی خدا کا کام غیر خدا سے چاہے اور اسے اس کی انجام دہی میں مستقل سمجھے تو وہ مشرک ہے لیکن اگر اس سے شفاعت چاہے جو اس بندے ہی کا کام ہے اور خدا نے اسے یہ حق دیا ہے تو اس میں کسی قسم کا کو ئی شرک نہیں ہے بلکہ عین ایمان اور تو حید ہے ۔آیت :”فلا تدعوا معاللہ احدا “میں لفظ ”مع “بھی اس کی واضح گواہی دے رہا ہے کہ یہا ں مقصود ہے کسی کو خدا کے ہم پلہ سمجھ کرموٴثر مستقل خیال کرنا ۔
خلا صہ یہ کہ اس بحث پراصرار وتاکید کا مقصد یہ ہے کہ مفہوم شفاعت میں تحریف اور اسے مسخ کرنا نہ صرف مذہب پر اعتراض کرنے والوں کو مذہب پرتنقید کا بہانہ فراہم کرتا ہے بلکہ دوعظیم مذہبی گروہ میں تفرقہ اور اختلاف کا سبب بھی بناہو اہے،
۴۹۔ واذنجیناکم من اٰل فرعو ن یسو مونکم سوء العذاب یذبحون ابناء کم ویستحیون نسائکم ط وفی ذٰلکم بلاء من ربکم عظیم
ً۴۹ نیز ( یاد کرو اس وقت کو) جب ہم نے تمہیں فرعونیو ں کے چنگل سے رہائی بخشی جو مسلسل تمہیں سخت ترین طریقے سے تکلیف وآزار پہنچاتے تھے تمہارے بیٹوں کے سر کاٹ لیتے اور تمہاری عورتوں کو (کنیزی کے لئے )زندہ رہنے دیتے اور اس میں تمہارے پرور دگار کی طرف سے تمہاری سخت آزمائش تھی ۔


 

۱ کشف ارتباب ص۲۶۸بحوالہ زیارةقبور ص۱۵۲

تعجب کی بات یہ ہے قرآن ا س آیت میں ایک اور عظیم نعمت کی طرف اشارہ کرتا ہے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma