عورت کی زندگی میں نیا مرحلہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
عورت اور اس کے حقوق کی تاریخ مساوات کے مفہوم میں اشتباہ نہ ہو

ظہور اسلام اور اس کی مخصوص تعلیمات کے ساتھ عورت کی زندگی ایک نئے مرحلہ میں داخل ہوئی جو پہلے دومرا حل سے بہت مختلف تھا۔ یہ وہ دور تھا جس میں عورت مستقل اور تمام انفرادی، اجتماعی اور انسانی حقوق سے بہرہ ور ہوئی۔ عورت کے بارے میں اسلام کی بنیادی تعلیمات وہی ہیں جن کا تذکرہ زیر بحث آیات میں ہے۔ ”و لھن مثل الذی علیھن بالمعروف“۔ یعنی عورت کے معاشرے میں جس قدر فرائض اہم ہیں اسی قدر قابل توجہ حقوق کی بھی مالک ہے۔
اسلام عورت کو مرد کی طرح کامل انسانی روح اور ارادہ و اختیار کی حامل سمجھتاہے اور اسے سیر تکامل اور ارتقاء کے عامل میں دیکھتا ہے جو کہ مقصد خلقت ہے اسی لیے اسلام دونوں کو ایک ہی صف میں قرار دیتاہے اور دونوں کو یا ایھا الناس“میں مخاطب کرتاہے۔ اسلام نے دونوں کے لیے تربیتی، اخلاقی اور عملی پروگرام لازمی قرار دیے ہیں۔ ارشاد الہی ہے:
”و من عمل صالحا من ذکر اور انثی و ہو مومن فاولئک یدخلون الجنة“
یعنی جو بھی مرد یا عورت عمل صالح بجالائے وہ مومن ہے اور ایسے ہی لوگ جنت میں جائیں گے۔ (مومن۔ ۴۰)
ایسی سعادتیں ہر دو اصناف حاصل کرسکتی ہیں۔ قرآن حکیم کہتاہے:
”مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اٴَوْ اٴُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اٴَجْرَہُمْ بِاٴَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُون“
مرد اور عورت میں سے جو بھی نیک کام کرے گا اور وہ ایمان دار بھی ہوگا تو ہم اسے پاک و پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور جو کچھ وہ کرتے رہے ہوں گے اس کا اچھے سے اچھا اجر و ثواب عطاکریں گے۔ (نحل ۔۹۷)
یہ آیات صراحت کرتی ہیں کہ مرد اور عورت میں سے ہر ایک اسلام کے پروگراموں پر عمل درآمد کے ذریعے معنوی اور مادی تکامل کی منزل پالیتاہے اور ایک طیب و پاکیزہ زندگی میں قدم رکھتاہے۔ جو کہ آرام و سکون کی منزل ہے۔
اسلام عورت کو مرد کی طرح مکمل طور پر آزاد سمجھتاہے۔ ارشاد الہی ہے:
”کل نفس بما کسبت رہینة“
ہر کوئی اپنے اعمال کے بدلے رہن ہے۔ (مدثر ۳۸)
”مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ وَمَنْ اٴَسَاءَ فَعَلَیْہَا“
جو بھی اچھا کام کرے تو یہ اس کے اپنے فائدے میں ہے اور جو برا کام کرے وہ بھی اس کا نیتجہ خو د بھگتے گا۔ (جاثیہ ۔ ۱۵)
یہ آیا ت بلا تفریق مرد اور عورت سب کے لیئے ہیں۔ اسی لیے سزاؤں کے بارے میں ایک آیت میں ہے۔
”الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ“
زانیہ اور زانی میں سے ہر ایک کو سوسو کوڑے مارو۔ (نور۔۲)
ایسی دیگر آیا ت میں بھی دونوں کے لیے ایک جیسے گناہ پر ایک جیسی سزا کا حکم سنایاگیاہے۔
ارادہ و اختیار سے استقلال پیدا ہوتاہے ۔ یہی استقلال اسلام اقتصادی حقوق میں لاتاہے۔ اسلام بغیر کسی رکاؤٹ کے ہر قسم کے مالی رابطے عورت کے لیے روا جانتاہے اور عورت کو اس کی در آمد اور سرمائے کا مالک شمار کرتاہے سورہ نساء میں ہے۔
”لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوا وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبْنَ“
مرد جو کمائیں وہ ان کا حصہ ہے اور عورتیں جو کمائیں وہ ان کا حصہ ہے۔ (نساء ۔ ۳۲)
لغت میں اکتساب کا کسب کے برعکس ہے۔ اکتساب کا نتیجہ کسب کرنے اور حاصل کرنے والے سے تعلق رکھتاہے ۱
اسی طرح قانون کلی ہے کہ:
”الناس مسلطون علی اموالہم“
یعنی۔ تمام لوگ اپنے مال پر مسلط ہیں۔
اس قانون کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتاہے کہ کس طرح اسلام عورت کے اقتصادی استقلال کا احترام کرتاہے اور عور ت و مرد میں اس نے کوئی فرق نہیں رکھا۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کی نظر میں عورت معاشرے کا ایک بنیادی رکن ہے اور اسے ایک بے ارادہ، محکوم اور قیم و نگران کا محتاج وجود ہرگز نہیں سمجھنا چاہئیے۔



 

۱ مفردات راغب دیکھئے، البتہ یہ مفہوم ان مواقع پر ہے جہاں کسب اور اکتساب ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں۔
 

عورت اور اس کے حقوق کی تاریخ مساوات کے مفہوم میں اشتباہ نہ ہو
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma