سودخوری کے نقصانات

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
قرآن مجید کا طریقہ ہےتجارتی دستاویزات

سود خور ی معاشرے کے اقتصادی اعتدال کو تباہ کردیتی ہے اورر دولت وثروت کے ارتکا ز کا سبب بنتی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ فقط ایک طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے اورتمام تر اقتصادی نقصانات دوسرے طبقے کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ یہ جوہم سنتے ہیں امیر اور غریب ملکوں میں دن بدن فاصلہ بڑھ کر رہا ہے تو اس کی ایک اہم وجہ سود ہے اس کے بعد خون آشام جنگیں برپا ہوںگی ۔
سود خوری ایک قسم کا غیر صحیح مبادلہ ہے جو انسانی جذبوں اور رشتوں کوکمزور کردیتا ہے اور دلوں میں کینے اور دشمنی کابیج بوتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سود خوری نظام ا س بنیا د پر استوا ر ہے کہ سود خور صرف اپنامالی مفاد پیش نظر رکھتا ہے اور مقروض کے نقصان پراس کی قطعا کوئی نظر نہیں ہوتی ۔
یہی مقام ہے جہا ں مقروض سمجھتا ہے کہ سود خور پیسے کو اسے او ردوسرے کوبس بے کرنے کا ذریعہ بنائے ہوئے ہے ۔یہ صحیح ہے کہ سود دینے والا اپنی ضرورت کے ماتحت سود دینے تیا رہو تاہے لیکن وہ اس بے انصافی کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ معاملہ کبھی یہاںجا پہنچتا ہے کہ مقروض سود خور کے پنجوں کی سخت گرفت شدت سے محسوس کرتا ہے کہ ایسے موقع پر اس بے چارے کا سارا وجود سود خور کو لعنت اور نفرین کر تا ہے اور ووہ ا س کے خون کا پیا سا ہو جا تا ہے۔وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے جو کمائی وہ جا ن کی بازی لگا کرکرتا تھا وہ سو دخور کی جیب میں جا رہی ہے ۔ ان حالا ت میں ایسا بحران پیدا ہو تا ہے کہ بہت سے وحشت ناک جرائم سا منے آتے ہیں ۔کبھی مقروض خود کشی کرلیتا ہے کبھی شدید کرب سے دوچار ہو کر سود خور کو المنا ک طریقے سے قتل کردیتاہے اور کبھی نتیجہ اجتماعی بحران ،عنونی افراتفری اور عوامی انقلاب کی صورت میں رونما ہوتی ہے ۔
تعاون کے رشتوں کی یہی کمزوری سود دینے والے اور سود لینے والے ممالک میں بھی واضح طور پرنظر آتی ہے ، وہ قو میں جو دیکھتیں ہیں کہ ان کا سرما یہ سود کے نام پردوسری قوم کی جیب میں جارہا ہے ۔ ایک خالص بغض وکینے اور نفرت سے اس قو م کو دیکھیں گی ۔ انہیں قر ض کی ضرورت تو ہے لیکن وہ منتظر رہتی ہیں کسی مناسب موقع پراپنے رد عمل کامظاہرہ کریں ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں سود خوری اخلاقی نقطہ نظر سے قرض لینے والے کے دل ودماغ پر بہت برا اثر مرتب کرتی ہے اور اس کے دل میں اس بات کاکینہ ضرور رہ جا تاہے ۔ اس سے افراد اور قوموں کے درمیان اجتماعی تعاون کا رشتہ ڈھیلا پڑجاتاہے ۔(۱)
اسلامی روایات میں ایک مختصر سے پرمعنی جملے کے ذریعہ سود کے برے اخلاقی اثر کی طرف اشارہ ہواہے ۔
کتاب وسائل الشیعہ میں سو دکی حرمت کی وجہ کے با رے میں ہے کہ ہشام بن سالم کہتا ہے امام صادق علیہ السلام نے فرما یا :۔” انما حرم اللہ عز وجل الربٰوالکیلا یمتنع الناس من اصطناعالمعروف“۔
خدا تعالی نے سود کو حرام قرار دی اہے تاکہ لو گ نیک کا م کرنے سے رک جائیں ۔ 2
۲۸۲۔یٰٓایھالذین اٰمنوا اذاتدا ینتم بد ین الی اجل مسمی فاکتبوہ ولیکتب بینکم کا تب بالعدل  ولا یاب کا تب ان یکتب کما علمہ اللہ فلیکتب  ولیممل الذین علیہ الحق ولیتق اللہ ربہ ولا یبخس منہ شیئاَ فان کا ن الذین علیہ الحق سفیحاَ او ضعیفاَاو لا یستطیع ان یمل ھو فلیملل ولیہ بالعدل  واستشھدو شھیدین من رجالکم  فان لم یکو ن رجلین فرجل وامراتٰن ممن ترضون من الشھداء ان تضل احدٰھما فتذکرااحدٰھما الاخرٰای  ولا یا ب الشھداء اذاما دعوا  ولا تسئمو اان تکتبوہ صغیرااو کبیراالی اجلہ  ذٰلکم اقسط عند اللہ واقوم للشھادة وادنی الاترتابوآالاان تکون تجارہ حاضرةتدیرونھا بینکم فلیس علیکم جنا ح الل تکتبوھا  واشھدوا ٓاذاتبا یعتم ولا یضآر کا تب ولا شھید  وان تفعلو ا فانہ فسوق بکم  واتقواللہ  ویعلمکم اللہ ط واللہ بکل شئی علیم
ترجمہ
۲۸۲۔اے ایمان والو !جب ایک معین مدت کے لیے (قرض یاکسی اور معاملے کے لیے )ایک دوسرے سے لین دین کروتو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ وہ عدل سے دستاویز لکھے اور جس شخص کو اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت عطا کی ہے اسے چاہیے کہ وہ لکھنے سے گریز نہ کرے اور جس کے ذمہ حق ہے املاوہ شخص کروائے اور خدا سے ڈرے او رطے شدہ معاملے میں کوئی چیز فرو گزاشت نہ کرے اور اگر قر ض لینے والا نادان یا ضعیف ہو (یا دیوانہ ہو)اور یا گونگاہو نے کی وجہ )املا نہ کرواسکتا ہو تو اس کے ولی کو چاہیئے کہ (اس بجائے )عدل کو ملحوظ رکھتے ہوئے املا کروائے اور اپنے مردوں میں سے دوافراد کو (اس حق پر )گواہ بنائے اور اگر دو مرد نہ ہو ں تو اپنے حسب اطمینا ن ایک مرد او ردو عورتیں منتخب کرلو (یہ دونو ں عورتیں مل کر ایک گوا ہ ہو ں گی اور یہ دو عورتیں اس لیے ہیں )تاکہ ایک بھو ل جا ئے تو دوسری اسے یاد دلادے اور جب گوا ہوں کو شہادت کے لیے بلایاجائے تو انہیں نکا ر نہیں کرنا چاہیئے اور وہ معاملہ جس کی مدت معین ہے چاہے تھو ڑا ہو یازیاد ہ اسے لکھنے پردل تنگ نہیں ہونا چاہیے (جو کچھ بھی ہو لکھ لینا چاہیئے ) یہ خدا کے نزدیک عدل کے نزدیک تر ہے ،شہادت کے لیے زیادہ سہولت اسی میں ہے اور شک وتردد (اور بحث ونزاع )کو روکنے کے لیے یہی بہتر ہے ۔ ہا ں البتہ جو لین دین دست بدست آپس میں کرتے ہو اس میں نہ بھی لکھا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں اورنقدخرید وفروخت کے وقت بھی گواہ بنا لیا کرو ۔ کا تب اور گواہ کو (حق گوئی کی وجہ سے ) کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے ۔ (اور نہ ان سے سختی کی جا نا چاہپیے )اور اگر ایسا کر و گے تو پرور دگار کے فرمان سے نکل جاوٴ گے ۔ خدا سے ڈرتے رہواور خدا تمہیں تعلیم دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔

 


(1)کتاب ”ریا خواری یا استعمار اقتصادی “کامطالعہ فرمائیں ۔
 (2)وسائل “ج ۱۲۔ ابواب ربٰوا ۔باب ۱ ۔ص ۴۲۲۔

 

قرآن مجید کا طریقہ ہےتجارتی دستاویزات
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma