زمانہ جاہلیت کے ایک طرز عمل کا خاتمہ

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
بعض قسمیں تو اسلام کی نگاہ میں بالکل لغو زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرد

”ایلاء“ و ہ رسم ہے جو زمانہ جاہلیت میں میاں بیوی کے در میان جدائی کے سلسلے میں عام تھی۔”ایلاء“کا مفہوم ہے کہ میاں بیوی والے تعلقات ترک کرنے کی قسم کھانا ۔ حکم طلاق نازل ہونے سے پہلے نو مسلموں میں بھی یہ رسم باقی تھی۔
زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرد اپنی بیوی سے متنفر ہو جاتا تو بعض اوقات قسم کھالیتا کہ وہ اس سے ہمبستری نہیں کریگا اس طرح وہ اپنی بیوی کو اپنے اس غیر انسانی سلوک سے ایک شدید عذاب میں مبتلا کردیتا۔ نہ رسمی طور پرطلاق دیتا کہ وہ آزادی سے اپنے لیئے کسی دوسرے شوہر کا انتخاب کرکے اپنی خواہشات پوری کرسکے نہ اس قسم کے بعد و ہ خود تیار ہوتا کہ اس سے صلح کرکے ایک شوہر کی طرح زندگی بسر کرے۔
زیر نظر آیت میں اس سلسلے میں اسلام کا معین کردہ طریق کار بیان کیاگیاہے۔ فرمایاگیا ہے کہ شوہر کو چارماہ کی مہلت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اس مصیبت اور عذاب سے نجات دے۔ اس عرصے میں وہ اپنی قسم کو ترک کردے اور اپنی بیوی کے ساتھ زندگی بسر کرے یا اُسے طلاق دے کر آزاد کردے۔
پہلی راہ کا انتخاب یعنی گھر کے ما حول کو خرابی سے بچانا بلا شبہ عقل و دانش کا تقاضا بھی ہے اور رضائے پروردگار کے حصول کا ذریعہ بھی، اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایاگیاہے۔
”فان فاءُ فان اللہ غفور رحیم“
اگر اپنے ارادے کو ترک کردیں تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
(فان اللہ غفور رحیم)۔ یہ جملہ دلالت کرتاہے کہ اس قسم کو ترک کرنا کوئی گناہ نہیں، اگرچہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ قسم کھانا خود بھی ایک پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
اگر مرد علیحدگی کا ارادہ کرلے اور طلاق دے دے تو اس صور ت میں بخشش و مغفرت مسلم نہیں ہے۔ خدا جو تمام اسرار سے آگاہ ہے، جانتا ہے کہ ہوس پرستی نے شوہر کو قانون طلاق سے غلط فائدہ اٹھانے پر ابھارا ہے یا اس کے حالات کا یہی تقاضا تھا۔ ظاہری طلاق جاری کرنے کے بارے میں، اس کا سبب اور محرک سب کچھ خدا کے علم میں ہے اسی لیے آیت کے آخر میں فرماتاہے۔
”وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیم“
اور اگر وہ طلاق ہی کا ارادہ کرلیں تو اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والاہے
توجہ رہے کہ اسلام لے ”ایلا“ کو بالکل تو ختم نہیں کیا البتہ اس کے بُرے آثار کو ختم کردیاہے کیونکہ وہ کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ ”ایلاء“ یا بیوی سے مباشرت ترک کرنے کی قسم کھانے سے وہ اپنی بیوی سے جدا ہوجائے۔
اسلام نے ایلاء کرنے والے کے لیئے مدت کا تعین اس لیے نہیں کیا کہ واقعا قسم کھانے سے ازدواجی حقوق میں سے کوئی حق باطل ہوجاتاہے۔ بلکہ یہ اس لیے ہے کہ واجب شرعی ہونے کے لحاظ سے مباشرت چار ماہ میں ایک مرتبہ ضروری ہے (البتہ یہ بھی اس صورت میں ہے کہ عورت طویل مدت کی وجہ سے گناہ کا شکار نہ ہو ورنہ اس صورت کے علاوہ خصوصا جوان عورتوں کے بارے میں کہ جہاں خطرہ ہو کہ وہ گناہ میں مبتلا ہوجائیںگی، ضروری ہے کہ عدم مباشرت کی مدت کم کردی جائے تا کہ اس کی جنسی ضرورت پوری ہوسکے)
 

بعض قسمیں تو اسلام کی نگاہ میں بالکل لغو زمانہ جاہلیت میں جب کوئی مرد
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma