اس مقام پر ہمارا سابقہ بنی اسرائیل

SiteTitle

صفحه کاربران ویژه - خروج
ورود کاربران ورود کاربران

LoginToSite

SecurityWord:

Username:

Password:

LoginComment LoginComment2 LoginComment3 .
SortBy
 
تفسیر نمونہ جلد 01
من وسلوی کی ایک اور تفسیر : بنی اسرائیل کے قبائیل کی تعداد کے عین مطابق جب یہ چشمے جاری ہوئے

اس مقام پر ہمارا سابقہ بنی اسرائیل کی زندگی کے ایک اور مرحلے سے پڑتا ہے جوسر زمین مقد س میں ان کے داخلے سے مربوط ہے
پہلی آ یت کہتی ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ان سے کہا کہ اس بستی (سر زمین قدس )میں داخل ہو جاوٴ (واذقلناادخلواھٰذہ ا لقریہ ) ۔
لفظ قریہ اگرچہ روز مرہ میں بستی کے معنی میں ہے لیکن قرآن اور لغت ِ عرب میں ہر اس محل و مقام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جہاں لوگ جمع ہوں چاہے وہ بڑے شہر ہوں یا بستیان یہاں مراد بیت المقدس اور قدس کی سر زمین ہے۔قرآن مزید کہتا ہے : اس کی فراوان نعمتوں میں سے جتنا چاہو کھاؤ ( فکلوا منھا حیث شئتم رغدا ) اور بیت المقدس کے دروازے سے خضوع و خشوع کے ساتھ گزر جاؤ ( وادخلو الباب سجدا ) اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے ( و قولو احطة ) تاکہ ہم تمہاری خطاؤں کو بخش دیں اور ہم نیک لوگوں کو زیا دہ بدلہ دیں گے ( نغفر لکم خطٰیٰکم و سنزید المحسنین
متوجہ رہنا چاہیئے کہ لفظ حطہ لغوی لحاظ سے جھاڑنے اور نیچے گرانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں اس کا معنی یہ ہوگا کہ خدایا ہم تجھ سے اپنے گناہوں کے گرنے کی خواہش کرتے ہیں ۔
خدا نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کے لئے یہ جملہ سچے دل سے زبان پر جاری کریں اور ان سے وعدہ کیا کہ اس حکم پر عمل در آمد کی صورت میں ان کی غلطیوں سے صرف ِ نظر کیا جائے گا ۔ شاید اسی مناسبت سے بیت المقدس کے ایک درواذے کا نام باب الحطہ رکھا گیا ہے جیسا کہ ابو حیان اندلسی نے بیان کیا ہے :
باب سے مراد بیت المقدس کا ایک دروازہ ہے جو باب حطہ کے نام سے مشہور ہے ۱
ٓ آ یت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے کہ نیک لوگوں کے لئے مغفرت اور گناہوں کی بخشش کے ساتھ ساتھ ہم اجر میں مزید اضافہ کریں گے و سنز ید المحسنین
بہر حال خدا وند عالم نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ گناہوں سے توبہ کے لئے خدا کی بارگاہ میں خضوع کے طور پر یہ جملہ بھی سچے دل سے زبان پر جاری کریں جو توبہ اور تقاضائے عفو کی دلیل ہے اور ان سے وعدہ کیا کہ اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ان کے گناہوں کو بخش دے گا بلکہ یہاں تک کہ ان کے پاک اور نیک کارلوگوں کو گناہوں کی بخشش کے علاوہ دوسرا اجر بھی دے گا ۔
لیکن جیسا کہ ہم بنی اسرائیل کی ہٹ دھر می اور سر کشی کو جانتے ہیں ، ان میں سے ایک گروہ نے یہ لفظ ادا کرنے کے حکم کی خلاف ورزی کی اور اس کے بجائے استہزا کے طور پر ایک مناسب لفظ کہنے لگے لہذا قرآن کہتا ہے : رہے وہ لوگ جو ظالم و ستمگار تھے انہوں نے اس لفط کو کسی اور لفط سے بدل دیا ۔( فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم ) ہم نے بھی ستمگروں پر ان کے فسق و گناہ کی وجہ سے آسمان سے عذاب اتارا ( فانز لنا علی الذین ظلموا رجزاََ من السماء بما کانوا یفسقون )
جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے ”رجز “ در اصل ا ضطراب ، انحراف اور بد نظمی کے معنی میں ہے ۔ یہ تعبیر خصوصاََ اونٹ کے لئے اس وقت استعمال ہوتی ہے جب وہ اپنے پاؤں کمزور اور ناتوانی کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب نامنظم طور پر رکھے ۔
مرحوم طبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں :
” رجز “در اصل حجاز کی لغت میں عذاب کے معنی میں ہے ۔
وہ نبی اکرم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جو طاعون کے موقع پر آپ نے ارشاد فرمائی :
انہ رجز عذب بہ بعض الامم من قبلکم
یہ ایک قسم کا عذاب ہے جو تم سے پہلے کی بعض امتو ں پر نازل ہوا ۲
اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض رویات میں زیر بحث آیت میں لفظ رجز کو ایک قسم کا طاعون کیوں قرار دیا گیا ہے ، جو تیزی سے بنی اسرائیل میں پھیلا اور اس نے ایک گروہ کو ختم کردیا ۔
ممکن ہے کہا جائے کہ طاعون کی بیماری ایسی چیز نہیں ہے جو آسمان سے نازل ہوسکتا ہے بنی اسرائیل کی طرف طاعون کے جراثیم ان کے گرد چلنے والی ہوا میں موجود غلیظ گرد و غبار میں شامل ہوں ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ طاعون کے درد ناک عوارض میں سے یہ بھی ہے کہ اس بیماری کے عالم میں لوگ گفتگو اور چلنے پھر نے میں بد نظمی اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں جو اس لفط کے اصلی معنی کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن مندرجہ بالا آیات میں ” فانزلنا علیھم “ کی بجائے ” فانزلنا علی الذین ظلموا “ جنہوں نے ظلم کیا ہم نے ان پر عذاب نازل کیا ) کہ کر یہ واضح کرتا ہے کہ اس عذاب اور خدا ئی سزا نے صرف بنی اسرائیل کے ستمگاروں کو ہی اپنی گرفت میں لیا اور سب خشک و تر اس میں نہیں جکڑے گئے ۔ اس کے علاوہ آخرآیت میں جملہ ” بما کانو ا یفسقون “ آیا ہے تاکہ اس موضوع کی مزید تاکید ہوجائے کہ ان کا ظلم و فسق ہی ان پر سزا اور عذاب کی علت اور سبب ہے ۔
اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ اس جملہ کے مذکورہ حصے نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ برے اعمال میں مصرو ف تھے اور ہمیشہ کے لئے ان پر کار بند تھے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ جب عادت کی شکل اختیار کرلیں اور حالت و کیفیت کے طور پر معاشرے میں مرتکز ہوجائے تو اس وقت عذاب الہی نازل ہونے کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
۶۰۔ و اذاستسقٰی موسٰی لقومہ فقلنا اضرب بعصاک الحجر ط فانفجرت منہ اثنتا عشرة عینا ط قد علم کل اناس مشربھم کلو ا و اشربو ا من رزق اللہ ولا تعثو ا فی الارض مفسدین
ترجمہ
۶۰ ۔ اور وہ زمانہ ) جب موسی ٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے اسے حکم دیا کہ اپنے عصا کو مخصوص پتھر پر مارو اچانک اس سے بارہ چشمے ابلنے لگے ( اس طرح کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے ) سب لوگ اپنے اپنے مخصوچشمے کو پہچانتے تھے ، ( اور ہم نے کہا خدا کی روزی میں سے کھاؤ پیو اور زمین پر فساد نہ کرو اور نہ ہی فساد پھیلاؤ ۔


 

۱ صاحب تفسیر الکاشف نے زیر نظر آیت کے ذیل میں ابو حیان کی یہ عبارت نقل کی ہے ۔  
۲ تفسیر نمونہ جلد ۴ میں بھی لفظ رجز کے معنی میں بحث کی گئی ہے ۔


 

من وسلوی کی ایک اور تفسیر : بنی اسرائیل کے قبائیل کی تعداد کے عین مطابق جب یہ چشمے جاری ہوئے
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma